0
Sunday 12 Jul 2020 11:34

سابق جج ارشد دباؤ پر فیصلہ کرنے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، انکوائری رپورٹ

سابق جج ارشد دباؤ پر فیصلہ کرنے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے، انکوائری رپورٹ
اسلام ٹائمز۔ جج ارشد ملک کی عہدے سے برطرفی کا سبب بننے والی انکوائری رپورٹ کے مطابق وہ اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے ہمدردوں کے دباؤ پر کوئی فیصلہ کیا۔ 13 صفحات پر مشتمل انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ بظاہر ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ملزم آفیسر کو موت یا جسمانی نقصان کا خوف لاحق ہوا ہو نہ ہی یہ بات دکھانے کی کوئی کوشش کی گئی کہ ملزم افسر متعقلہ افراد سے دور نہیں بھاگ سکتے تھے۔ لاہور ہائی کورٹ کی 7 رکنی انتظامی کمیٹی کی جانب سے تفویض کردہ انکوائری جسٹس سردار احمد نعیم نے کی۔ جج نے سابق ڈسٹرک اینڈ سینشن جج ارشد ملک پر بھاری جرمانہ کرنے ک تجویز دی تھی جنہوں نے اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت میں پوسٹنگ کے دوران نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا سنائی اور فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا تھا۔

انتظامی کمیٹی نے 3 جولائی کو انکوائری کمیٹی کی روشنی میں جج کی عہدے سے برطرفی کی منظوری دی تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ریکارڈ، سابق جج کی نواز شریف کے مبینہ ہمدردوں مہر ناصر، ناصر جنجوعہ اور ناصر بٹ سے واقفیت اور ان افراد سے مسلسل ملاقاتوں کو ثابت کرتے ہیں اور ان کے احتسابی ریفرنس کے حوالے سے ہمیشہ کچھ مطالبے ہوتے تھے جبکہ ریکارڈ ثابت کرتے ہیں کہ جج تک ان کی ہمیشہ رسائی تھی۔رپورٹ کے مطابق یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریفرنسز کے فیصلے کے بعد جج جاتی امرا گئے اور جب سابق وزیراعطم نواز شریف عمرے کے لیے گئے تو وہاں ان سے اور ان کے بیٹے حسین نواز سے ملاقات کی۔ مزید یہ کہ جج کے اپنے دفاع میں لکھی گئی تحریر میں بتایا ناصر بٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کی تیاری کے لیے ان سے ملاقات کی۔
خبر کا کوڈ : 873933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش