1
Wednesday 15 Jul 2020 03:08

انصاراللہ یمن کیجانب سے تل ابیب پر ممکنہ میزائل و ڈرون حملہ بعید نہیں، عرب اخبار

انصاراللہ یمن کیجانب سے تل ابیب پر ممکنہ میزائل و ڈرون حملہ بعید نہیں، عرب اخبار
اسلام ٹائمز۔ معروف عرب اخبار رأی الیوم نے اپنے اداریئے کے اندر یمنی انٹیلیجنس کور کے سربراہ جنرل عبداللہ یحیی الحاکم کے اس بیان کا تجزیہ و تحلیل پیش کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور (اسرائیلی دارالحکومت) تل ابیب کے اندر موجود حساس مقامات کی فہرست تیار کر لی گئی ہے۔ رأی الیوم نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ یمنی انٹیلیجنس چیف کی جانب سے اس اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر ہی سعودی فوجی اتحاد کی طرف سے یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ اُس نے یمن کے 4 بیلسٹک میزائلوں اور 6 ڈرون طیارون کو ریڈارز پر ٹریک کر لیا ہے جبکہ یمنی مسلح افواج کے ترجمان نے بھی اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمنی بیلسٹک میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے اپنے اہداف کو سوفیصد کامیابی کے ساتھ نشانہ بنایا ہے۔

عرب اخبار رأی الیوم نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ سعودی جغرافیائی گہرائی کے اندر تک جوابی کارروائی پر مبنی یمنی انٹیلیجنس چیف کا بیان کوئی تازگی نہیں رکھتا بلکہ ان کی زبان سے متحدہ عرب امارات و مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) اندر قرار دیئے جانے والے جدید اہداف نیا انکشاف ہیں؛ لہذا یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) تک اہداف کا دائرہ بڑھائے جانے کی نئی (یمنی) حکمت عملی کے ساتھ روبرو ہیں؟ اور کیا یمنی مزاحمتی فورس انصاراللہ کے پاس ایسے میزائل بھی موجود ہیں جو تل ابیب تک پہنچ سکیں؟ یا یہ کہ یہ دھمکیاں صرف نفسیاتی جنگ کے حوالے سے ہی جاری کی گئی ہیں؟

عرب اخبار نے تحریر کیا کہ یمنی مزاحمتی فورس انصاراللہ، لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے نقش قدم پر چل رہی ہے جبکہ اس نے اپنی زیادہ تر دھمکیوں کو عملی جامہ پہنا کر بھی دکھا دیا ہے۔ عرب اخبار نے لکھا کہ انصاراللہ یمن نے ریاض، جدہ، خمیس مشیط اور سعودی تیل کی مصنوعات کے مرکز "بقیق" کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی جن پر اس نے عملدرآمد کر کے بھی دکھایا ہے۔ رأی الیوم نے لکھا کہ مذکورہ بالا اہداف کو اپنے بیلسٹک میزائلوں و ڈرون طیاروں کے حملوں کا نشانہ بنا کر انصاراللہ یمن نے نہ صرف دشمن بلکہ بین الاقوامی ماہرین کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔

برطانوی دارالحکومت سے چلنے والے معروف عرب اخبار رأی الیوم نے اپنے ادرایئے میں لکھا ہے کہ اسرائیل پر انصاراللہ یمن کے حملے کے حوالے سے 2 امکان موجود ہیں جبکہ ان دونوں کا وقوع پذیر ہونا بھی کوئی بعید نہیں؛
1۔ اول یہ کہ انصاراللہ یمن، "ایلات" نامی اسرائیلی بندرگاہ جو "خلیج عقبہ" کے انتہائی شمالی حصے میں واقع ہے، کو نشانہ بنائے کیونکہ انصاراللہ یمن کے بیلسٹک میزائل اور ڈرون طیارے سعودی عرب کے شمال مغرب میں واقع "ینبع" بندرگاہ تک تو پہنچ ہی چکے ہیں جبکہ اسرائیلی بندر گاہ "ایلات" وہاں سے زیادہ دور نہیں اور درحقیقت یمنی بیلسٹک میزائلوں کی زد میں واقع ہے۔
2۔ دوسرے یہ کہ اماراتی و سعودی بحری بیڑوں کے ساتھ ہونے والے حادثے کے مانند، آبنائے "باب المندب" یا بحر احمر کے جنوبی حصے کے اندر موجود اسرائیلی بحری بیڑوں کو سمندری میزائلوں یا تیزرفتار "خودکش" کشتیوں کی مدد سے نشانہ بنایا جائے گا۔

عرب اخبار رأی الیوم نے یمن پر مسلط کردہ سعودی جنگ کی تازہ ترین صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ گذشتہ 6 سالوں سے یمن کے چپے چپے پر ہونے والی شدید سعودی بمباری کے نتیجے میں اب یمن کے پاس کھو دینے کو کچھ باقی نہیں بچا اور نہ ہی صنعاء یا صعدہ میں اب کوئی ایسا ہدف موجود ہے جس پر اسرائیلی فورسز اپنی بمباری کر سکیں؛ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انصاراللہ یمن کی جانب سے آئندہ ہفتے کے دوران متحدہ عرب امارات یا اسرائیل (یا پھر ہر دو) پر بیلسٹک میزائلوں یا ڈرون طیاروں کی مدد سے کیا جانے والا ممکنہ وسیع حملہ بعید نہیں۔ عرب اخبار نے لکھا کہ اس حوالے سے یہ بھی ممکن ہے کہ یمنی مزاحمتی فورس انصاراللہ کی جانب سے متحدہ عرب امارات و اسرائیل پر ہونے والا یہ ممکنہ حملہ، یمن پر مسلط کردہ جنگ کی 6 سالہ تاریخ کے دوران جدید ترین، خطرناک ترین اور حیران کن ترین بھی قرار پا جائے۔
خبر کا کوڈ : 874493
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش