0
Friday 24 Jul 2020 14:43

برادر اسلامی مُلک کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ

برادر اسلامی مُلک کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ
تحریر: نصرت علی شہانی

22 جولائی کے جنگ کراچی میں ”ایران چین تاریخی معاہدہ“ کے عنوان سے ایک طویل مضمون میں ڈاکٹر ناظر محمود صاحب نے کافی حد تک مثبت انداز میں اس معاہدہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔ بالخصوص ہمارے وجود کے ازلی دشمن بھارت کو اس معاہدہ سے پہنچنے والے نقصان کا احسن انداز میں تجزیہ کیا ہے۔ وطنِ عزیز کو مذکورہ معاہدے کے بالواسطہ، بلاواسطہ فوائد کا بھی اجمالی تذکرہ کیا گیا، لیکن مضمون کا افسوسناک پہلو ہمارے واحد قابلِ اعتماد ہمسایہ مسلمان مُلک ایران کے خلاف وہ بے بنیاد الزامات ہیں، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکی، یہودی و سعودی حلقوں کی طرف سے لگائے جاتے رہے ہیں۔ مضمون نگار نے ایسے اوچھے الزامات عائد کئے، جن کا ان کے اصل موضوع یعنی ایران، چین معاہدے سے کوئی ربط ہی نہیں، البتہ جن سے بھارت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ان کے بقول ایران، بھارت ایک ہی طرح کی سیاسی حرکتیں کرتے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں یکساں ہیں۔ ایران سُنّی اقلیت کو کچلتا ہے، تھیوکریسی نے اپنی آمریت قائم کی ہوئی ہے وغیرہ۔

مضمون میں لگائے الزامات سے قطع نظر ادبیات بھی افسوسناک ہے۔ کوئی منصف مزاج غیر مسلم تجزیہ نگار بھی ان گھسے پٹے امریکی، اسرائیلی پراپیگنڈہ کو ماننے کو تیار نہیں کہ ایران و بھارت ایک جیسی ”سیاسی حرکتیں“ کرتے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں یکساں ہیں۔ اس طرح کے متعصبانہ تجزیہ سے درحقیقت کشمیر کاز کو نقصان پہنچتا ہے اور بھارت کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے۔ ایران کے بہترین سیاسی نظام اور شفاف جمہوری انتخابی عمل کا دنیا بھر کے منصف مزاج حلقے اعتراف کرتے ہیں۔ اسے بھارت کے ظالمانہ، سفاکانہ نظام کے مشابہ قرار دینا فی الواقع بھارت کا دفاع ہے۔ بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر وہاں کے ہندو بھی سراپا احتجاج ہیں، لیکن مضمون نگار اسے ایران کے عادلانہ نظام کی طرح قرار دے کر نجانے مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرکے کن کو خوش کر رہے ہیں۔؟

اسلامی نظامِ حکومت میں پُرامن شہریوں کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے امن دشمن عناصر کی سرکوبی ضروری ہے، جو حقیقی معنوں میں انسانی حقوق کی پاسداری ہے، لیکن مضمون نگار نے اس نظریہ کی حمایت و دفاع کی بجائے اسلام دشمنوں کے موقف کو تقویت پہنچائی ہے، جس میں وہ اسلام کے نظامِ حدود و تعزیرات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں، جس کا آئے دن پاکستان پر امریکی، یورپی حکومتوں کا دباؤ ہمارے سامنے ہے۔ ایران میں سُنّی اقلیت کو کچلنے کا پراپیگنڈہ بھی دیگر الزامات کی طرح صریح بے بنیاد ہے۔ اسلامی حکومت کے دستور کے مطابق انہیں یکساں شہری، مذہبی، آئینی حقوق حاصل ہیں۔ پارلیمنٹ میں اُن کی نمایندگی ہے، اُن کے دینی مراکز کی یکساں طور پر حفاظت کی جاتی ہے۔ اہلسنت کی کسی مسجد، مدرسہ میں کبھی کوئی بم دھماکہ، خودکُش حملہ نہیں ہوا۔

ہمارے بلوچستان سے ملحقہ ایرانی بلوچستان، سیستان میں اہلسنت پر وہاں کے دہشت گرد عبدالمالک ریگی نے حملے کئے تھے، جو مبینہ طور پر سی آئی اے کی سرپرستی میں بدقسمتی سے ہماری سرزمین سے سرحد پار دہشت گردانہ کارروائیاں کرتا تھا۔ ہماری سرحد سے متصل ایران کے اہلسنت علاقوں سمیت پورے ایران کے ہر سُنی شہری کو حکومت کی طرف سے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے، جس کا ہمارے ہاں تاحال شاید کوئی تصور بھی نہیں۔ اسی طرح وہاں کے دینی مدارس میں زیرِ تعلیم طلبہ کو بھی شیعہ دینی طلباء کی طرح ماہانہ وظیفہ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں۔ کیا یہ ان کی فلاح و بہبود کی خاطر ہے یا کچلنے کے لئے۔؟ ایران میں اہلسنت کے حقوق کی پاسداری کے حوالے سے یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ فروری 2019ء میں دینی تعلیم کے ایرانی اداروں کے سربراہ جناب آیت اللہ علی رضا اعرافی کی جامعۃ المنتظر لاہور میں پاکستان کے اہلسنت دینی مدارس کی ممتاز شخصیات کے ساتھ ملاقات میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث ہوئی تھی، جس میں جناب اعرافی نے وہاں اہلسنت کی مساجد و مدارس کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کئے۔ بعض سیاسی امور بھی زیرِبحث آئے۔

اس میٹنگ میں بریلوی مکتبِ فکر کے مدارس کے سربراہ جناب مولانا مفتی منیب الرحمن، دیوبندی مسلک کے ہزاروں مدارس کے نمائندہ جناب مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اہلحدیث کے جناب مولانا ڈاکٹر محمد یاسین ظفر، جماعت اسلامی کے مدارس کے جناب مولانا عبدالمالک نے شرکت کی تھی۔ ان ممتاز علمی شخصیات نے تو اہلسنت کے حقوق کے حوالے سے ایسی کوئی بات نہیں کی، جس کا ذکر مضمون نگار نے کیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ پر ہے کہ امریکی اشارے پر عرب بادشاہتوں، ریاستوں نے ایران میں خلفشار کے لئے وہاں کی سُنی آبادی کو ورغلانے کے لئے مذہب کا کارڈ استعمال کیا، جس کے نتیجہ میں بعض افراد ان کے آلہء کار بنے، جن سے اسلامی قانون کے مطابق سلوک کیا گیا اور اہلسنت عوام کی اکثریت نے بھی انہیں امن دشمن قرار دے کر اُن سے اظہارِ لاتعلقی کیا۔ اپنی سازش کی ناکامی پر سرپرست عرب طاقتوں نے اسے ”انسانی حقوق“ کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا، جسے مغربی میڈیا نے خوب اچھالا۔ زیرِبحث مضمون میں یہ الزام بھی اسی کی باز گشت ہے۔ مذہب کے نام پر اغیار کے پے رول پر وطنِ عزیز کو تباہ کرنے والوں کا کردار ہمارے سامنے ہے۔ قومی ایکشن پلان کے تحت ان کے عبرتناک انجام کو بھی اُن کے سرپرست انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔

ایران میں تھیو کریسی کی ”آمریت“ بھی اسی میڈیا ٹرائل کا حصہ ہے۔ اعلیٰ روحانی قیادت کو ہدف بنانے کا مقصد واضح ہے، کیونکہ اسی نظامِ مرجعیت اور علماء کی سرپرستی میں قائم حکومت نے امریکی، اسرائیلی عزائم خاک میں ملائے۔ بالخصوص عراق و شام میں درندہ صفت داعش کو ذلّت آمیز شکست و رسوائی کے نتیجہ میں اسرائیل کو لگنے والی شدید چوٹ کی اذیّت کا انداز کیا جا سکتا ہے۔ قرآن و سُنت کی روشنی میں اعلیٰ روحانی قیادت پر ایرانی عوام اور تمام اداروں کا غیر متزلزل یقین اور وفاداری ہمیشہ سے اسلام دشمنوں کو ”ُآمریت“ ہی نظر آتی ہے، لیکن ڈاکٹر ناظر محمود جیسے دانشور کو اس باطل فکر کو نہیں دہرانا چاہیئے۔ اِسی نظام کی برکات سے وطنِ عزیز خونخوار داعش کے شر سے محفوظ ہوا، جس پر اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ نظامِ مرجعیت اور ولایتِ فقیہ کا بھی شکر گزار ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 876279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش