1
Monday 27 Jul 2020 03:30
ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے یورپی مجلے میں ایرانی مذاکرات کار کا مفصل کالم

امریکی بدمعاشی کے باعث جوہری توانائی پر اپنے مسلمہ حق سے دستبردار نہیں ہونگے، سید عباس عراقچی

امریکی بدمعاشی کے باعث جوہری توانائی پر اپنے مسلمہ حق سے دستبردار نہیں ہونگے، سید عباس عراقچی
اسلام ٹائمز۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ڈپٹی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایک یورپی مجلے میں چھپے والے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ ان تمام سالوں کے دوران جب میں اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری پروگرام پر ہونیوالے مذاکرات کے سلسلے میں مختلف ممالک و بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ رابطے میں تھا تو تمام فریقوں کی توجہ اس سوال کی جانب مرکوز رہا کرتی تھی: "ایران اپنے صلح آمیز جوہری پروگرام کے ذریعے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ سید عباس عراقچی نے لکھا کہ میں نے اس سوال کے بارہا جواب میں یہی عرض کیا ہے کہ "ایرانی جوہری پروگرام" درحقیقت اس وسیع منصوبے کا ایک حصہ ہے جو گزشتہ 60 سال سے؛ اسلامی انقلاب سے پہلے یا بعد میں، ایرانی پیشرفت کے لئے ضروری بنیاد فراہم کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اختیار کردہ سیاست کے نتیجے میں "جوہری ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی" کے نعرے کے ساتھ ایران، بین الاقوامی سطح پر منظور شدہ قراردادوں اور معاہدوں میں، ان کی ابتداء سے ہی شریک ہو گیا تھا تاکہ دوسرے ارکین اقوام متحدہ کے مانند جوہری علم سے تعمیری استفادے پر مبنی اپنے صلح آمیز جوہری پروگرام سے اقوام متحدہ کو مطلع کرتا رہے۔

ایرانی ڈپٹی وزیر خارجہ نے پولینڈ کے مجلے پولیٹیکا پولسکا (PolitykaPolska) میں چھپنے والے اپنے مقالے کے اندر ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے معاہدوں کے پے در پے توڑے جانے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ سال 1979ء
میں ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہو جانے کے بعد ایران کے تعریف شدہ مشترکہ جوہری پروگرام میں شریک مغربی فریقوں نے نہ صرف خلاف توقع انداز میں اپنے معاہدے توڑنا شروع کر دیئے بلکہ جارح عراقی آمر صدام حسین کی طرف سے ایران پر جنگ مسلط کئے جانے کے بعد وہ (مغربی ممالک) اپنے دستخط شدہ معاہدوں سے بھی یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ سید عباس عراقچی نے اپنے مقالے میں لکھا کہ ان حوادث کے بعد پیش آنے والی سخت صورتحال میں 5، 7 اور 10 سال کے الگ الگ مراحل پر مشتمل قومی پیشرفت کے ایرانی منصوبے؛ جس کی کامیابی پر صنعت و طب اور غیر فاسیلی انرجی کے حصول میں جوہری علم کے استفادے کا دارومدار تھا، پر دوبارہ سرمایہ کاری انتہائی ناگزیر ہو چکی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ اس سلسلے میں ایران کے اندر علمی تحقیقی سرگرمیوں اور جوہری علم میں حاصل ہونے والی کامیابیوں و محصولات کے دائرے میں انتہائی وسعت پیدا ہوئی جس کے باعث ملک کو درپیش جوہری علم میں پیشرفتہ ممالک کی محتاجی میں بھی پہلے سے کہیں بڑھ کر کمی واقع ہوئی لہذا ایرانی جوہری تونائی کمیشن کی سرگرمیوں کے مختلف پہلوؤں پر عالمی حساسیت بھی اُبھر کر سامنے آ گئی۔

جوہری معاملات پر سینیئر ایرانی مذاکرات کار و ایرانی ڈپٹی وزیر خارجہ نے ویٹو پاور کی حامل عالمی طاقتوں کی جانب سے ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف ان کہی معاندانہ سیاست، عراق و لیبیا کے جوہری پروگرامز کی بندش اور سال 2003ء میں عراقی آمر صدام حسین کے خلاف
وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WDM) کے بہانے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف امریکی حملے کو ایرانی جوہری پروگرام کے خلاف رائے عامہ کی ہمواری کا موجب قرار دیا اور لکھا کہ ایران نے ایک ذمہ دار ملک اور عالمی برادری کو جوابگو ہونے کی حیثیت سے اپنے صلح آمیز جوہری پروگرام سے متعلق ہر ابہام اور غلط معلومات کو نہ صرف واضح طور پر بیان کیا بلکہ عالمی جوہری توانائی کمیشن سمیت متعقلہ ہر بین الاقوامی ادارے کو مکمل شفافیت کے ساتھ پورا تعاون بھی فراہم کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ نتیجے کے طور پر ایرانی جوہری پروگرام کے ہر ایک مقام پر عالمی جوہری توانائی کمیشن کے انسپکٹرز کے مسلسل معائنوں، کیمروں کے نصب کئے جانے اور حتی عالمی جوہری توانائی کمیشن کے انسپکٹرز کی وہاں مسلسل موجودگی اور متعدد ایرانی جوہری تنصیبات میں ان کی مختلف سرگرمیوں نے عالمی جوہری توانائی کمیشن کی بیمثال و تاریخی کارکردگی کو رقم کر دیا جس کے باعث ایرانی صلح آمیز جوہری پروگرام کے خلاف کیا جانے والا عظیم پراپیگنڈہ بھی برطرف ہو گیا۔ ایرانی ڈپٹی وزیر خارجہ نے لکھا کہ عالمی جوہری توانائی کمیشن کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات سے اکٹھے کئے گئے عظیم اور دقیق اعداد و شمار، اب بھی اس سلسلے میں انجام دی جانے والی کسی بھی نئی تحقیق کے لئے بہترین منبع قرار پا سکتے ہیں۔

ایران کے سینیئر جوہری مذاکرات کار اور ڈپٹی وزیر خارجہ نے اپنے مقالے میں عالمی طاقتوں (1+5) کے ساتھ
ہونے والے سخت مذاکرات، ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) کے حصول اور اس معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری پر روشنی ڈالی اور مزید لکھا کہ ایران نے پرامن مقاصد کے لئے جوہری ٹیکنالوجی کے حصول میں تردید سے کام لیا ہے اور نہ ہی کبھی لے گا۔ انہوں نے لکھا کہ پرامن جوہری توانائی سے استفادہ، ایرانی عوام کا مسلمہ حق ہے جبکہ ہم امریکی غنڈہ گردی کے سبب اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔ ایرانی ڈپٹی وزیر خارجہ نے لکھا کہ پابندیوں کے باعث ہونے والے انتہائی بھاری اخراجات (اور جوہری دانشمندوں کی جانب سے دی جانے والی جانی قربانیوں) کے باعث ہم خود کو آنے والی نسلوں کے حوالے سے ذمہ دار گردانتے ہیں تاکہ بدمعاش طاقتوں کی جانب سے مسلط کئے جانے والے جبر و تسلط کو قبول نہ کریں۔ انہوں نے اپنے مقالے کے آخر میں لکھا کہ ہم عالمی جوہری توانائی کمیشن کے منظور شدہ قواعد و ضوابط کے مطابق اپنا پرامن جوہری پروگرام جاری رکھیں گے اور جب بھی جوہری معاہدہ (JCPOA) ہمارے مفادات کے ساتھ سازگار ہوا، ہم جوہری معاہدے پر بھی مکمل علمدرآمد شروع کر دیں گے۔ انہوں قدیم ایرانی تاریخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایران اپنی 7 ہزار سالہ تاریخ کے مانند؛ جس میں ایران نے ہمیشہ اپنی خودمختاری کی حفاظت کی ہے اور مغربی ایشیاء کے پرطلاطم حالات میں ہمیشہ ایک طاقتور اور مستحکم ملک کے طور پر باقی رہا ہے، آج بھی اپنے اٹل فیصلوں پر باقی رہے گا اور ان پر بھرپور عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔
خبر کا کوڈ : 876711
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش