0
Sunday 2 Aug 2020 18:45

عرب ممالک کا پہلا ایٹمی پاور پلانٹ یو اے ای میں فعال، قطر کا اعتراض

عرب ممالک کا پہلا ایٹمی پاور پلانٹ یو اے ای میں فعال، قطر کا اعتراض
اسلام ٹائمز۔ تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات نے برکہ جوہری پاور پلانٹ فعال کردیا ہے جس کے ساتھ ہی وہ فعال جوہری پاور پلانٹ کا حامل پہلا ملک بن گیا ہے۔ یہ اعلان عیدالاضحیٰ کے موقع پر کیا گیا اور اس اقدام سے چند دن قبل ہی امارات مریخ پر مشن بھیجنے والا بھی عرب دنیا کا پہلا ملک بنا تھا۔ بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی میں امارات کے نمائندہ حماد الباقی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ برکہ نیوکلیئر انرجی پلانٹ پر واقع متحدہ عرب امارات کے پہلے جوہری ری ایکٹر نے کامیابی کے ساتھ کام شروع کردیا ہے۔ انہوں نے فتح کی علامت کے طور پر ہاتھ بلند کیے ہوئے تکنیکی ماہرین کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ قوم کے لیے ایک تاریخی موقع ہے جہاں ہماری سوچ قوم کو نئی صاف توانائی فراہم کرنا ہے۔
 
متحدہ عرب امارات کے وزیراعظم اور حاکمِ دبئی شیخ محمد بن راشد آل مکتوم نے بھی ایک ٹوئٹ میں عرب دنیا کے اس پہلے جوہری پاور پلانٹ کے فعال ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے چار یونٹوں میں سے پہلے یونٹ میں کامیابی سے جوہری ایندھن بھر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عرب دنیا میں جوہری توانائی کا پہلا پُرامن ری ایکٹر ہے اور یو اے ای دنیا میں محفوظ، صاف اور قابلِ اعتماد بجلی کے حصول کے لیے جوہری توانائی کا پلانٹ نصب کرنے والا دنیا کا 33واں ملک ہے۔ براکہ جوہری پاور پلانٹ ابو ظہبی کے علاقے الظفرہ میں واقع ہے اور یواے ای کی سرکاری خبررساں ایجنسی وام کے مطابق یہ پاور پلانٹ ملک میں مصفا بجلی پیدا کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور یہ قریباً 60 سال تک یو اے ای کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔

براکہ جوہری پاور پلانٹ جب اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ فعال ہوگا تو اس سے 5ہزار 600 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، یہ ایک ماحول دوست منصوبہ ہے اور اس سے ہر سال دو کروڑ دس لاکھ ٹن کاربن کے اخراج کی بچت ہوگی اور ایک اندازے کے مطابق یہ مقدار یو اے ای کی شاہراہوں پر دوڑنے والی سالانہ 32 لاکھ کاروں کو ہٹانے کے مترادف ہے۔ امارات کی جوہری توانائی کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد الحمادی کا کہنا ہے کہ براکہ جوہری توانائی پاور پلانٹ اب ملک کی ترقی کا انجن بن گیا ہے، یہ یو اے ای کی بجلی کی 25 فی صد ضروریات کو پورا کرے گا جبکہ اس سے کوئی کاربن گیس خارج نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے معاشی تنوع میں مدد ملے گی اور جوہری توانائی کی مقامی پائیدار صنعت کے قیام اور سپلائی سےاعلیٰ قدری اہمیت کے حامل روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس پلانٹ کے نظام کی آیندہ مہینوں کے دوران میں مسلسل نگرانی کی جائے گی، آیندہ چند ماہ کے دوران میں اس کے معیار کی جانچ کی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ تمام ریگولیٹری تقاضوں کے علاوہ تحفظ ، معیار اور سلامتی کے اعلیٰ بین الاقوامی معیارات پر پورا اُترے۔ متحدہ عرب امارات نے فروری میں ماہرین کی منظوری کے بعد چار براکہ کے چار میں سے پہلے ری ایکٹر میں فیول روڈز لوڈ کرنا شروع کردی تھیں جس سے اس کے کمرشل آپریشن کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔

اس پاور پلانٹ کو دراصل 2017 میں فعال ہونا تھا لیکن حفاظت کے حوالے سے مختلف مسائل اور درکار عالمی ضوابط کے باعث یہ منصوبہ کئی مرتبہ التوا کا شکار ہوا۔ توانائی کے لیے متحدہ عرب امارات کا اصل انحصار تیل اور گیس کے ذخائر پر ہے لیکن ایک کروڑ آبادی کے حامل ملک نے بڑھتی ہوئی آلودگی کے پیش نظر ملک کو صاف رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر جوہری ری ایکٹر اور سولر توانائی جیسے متبادل ذرائع میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کردی ہے۔ یہ خطے کا پہلا نیوکلیئر ری ایکٹر ہے اور اس کے بعد سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ بھی 16یوکلیئر ری ایکٹر بنانے پر کام کر رہے ہیں لیکن یہ منصوبہ مستقبل قریب میں عملی شکل اختیار کرتا نظر نہیں آ رہا۔ اسے کوریا الیکٹرک پاور کارپوریشن کے تعاون سے 24.4ارب ڈالر میں تعمیر کیا گیا ہے اور جب اس کے چاروں ری ایکٹر اپنی پوری استعداد سے کام کریضں گے تو یہ پانچ ہزار 600میگا واٹ بجلی پیدا کریں گے جو ملکی ضروریات کا 25فیصد بنتی ہے جبکہ بقیہ تینوں ری ایکٹر بھی فعال ہونے کے لیے تقریباً تیار ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں اس کی بدولت ناصرف کم قیمت پر بجلی فراہم کی جا سکے گی بلکہ حکام سیاحت، بینکنگ اور سروسز کو وسعت دیتے ہوئے ملک کو ان کا مرکز بنانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ اوپیک ممالک میں خام تیل کی پیداوار میں چوتھے بڑے ملک نے حال ہی میں گیس کے ذخائر بھی دریافت کیے ہیں جبکہ وہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی تعمیر پر بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ 2050ء ملک کی آدھی سے زائد توانائی کی ضروریات اسی ذرائع سے پوری کی جائیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ ری ایکٹر ایران کی سرحد سے 50 کلومیٹر اور ابوظہبی کی نسبت قطر کے دارالحکومت دوحہ سے زیادہ قریب ہے۔ قطر کا کہنا ہے کہ یہ پاور پلانٹ خطے کے امن اور ماحول کے لیے خطرناک ہے تاہم اس کے برعکس امارات کا کہنا ہے کہ اس کا پاور پلانٹ پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
خبر کا کوڈ : 877905
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش