0
Saturday 8 Aug 2020 13:06

اشرف غنی کا جرگے سے 400 قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اپیل

اشرف غنی کا جرگے سے 400 قیدیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کی اپیل
اسلام ٹائمز۔ افغان صدر اشرف غنی نے جمعہ کے روز کابل میں جمع ہونے والے ہزاروں ممتاز شہریوں سے اپیل کی کہ وہ 400 کے قریب قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کریں جن میں متعدد افغانوں اور غیر ملکیوں کو ہلاک کرنے والے شامل ہیں۔ قیدیوں کی رہائی دونوں فریقین، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز میں ایک اہم رکاوٹ ہے جس نے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی قیدیوں کے تبادلے کو مکمل کرنے کا عہد کیا تھا۔ افغان حکومت نے تقریبا 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے تاہم حکام نے طالبان کی جانب سے مطالبہ کیے گئے قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا ہے۔ اشرف غنی نے زور دیا کہ اگر قیدیوں کو رہا کیا گیا تو امن مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے جبکہ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کسی بھی فیصلے کی بھرپور حمایت کریں گے۔

انہوں نے قبائلی عمائدین اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے متنازع معاملات پر فیصلہ کرنے کے لیے روایتی افغان جرگے کا انعقاد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے کہا تھا کہ اگر ان 400 کو رہا کر دیا گیا تو پھر تین دن کے اندر براہ راست مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انہیں رہا نہ کیا گیا تو نہ صرف وہ جنگ جاری رکھیں گے بلکہ وہ اس میں شدت پیدا کریں گے لیکن قوم سے مشورہ کیے بغیر انہیں رہا کرنا ممکن نہیں تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے حراست میں موجود افراد کی رہائی کے لیے زور دیا جبکہ اس کا اعتراف کیا یہ فیصلہ "غیر مقبو" ہو گا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ یہ مشکل اقدام افغان باشندوں اور افغانستان کے دوستوں کے طویل عرصے سے تلاش کیے جانے والے ایک اہم نتیجہ کا باعث بنے گا، تشدد میں کمی اور براہ راست مذاکرات کے نتیجے میں امن معاہدہ اور جنگ کا خاتمہ ہو گا۔

جرگے میں شریک خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی قانون ساز بلقیس روشن نے قیدیوں کی رہائی کے خلاف احتجاج کیا۔ جب اشرف غنی تقریر کر رہے تھے تو وہ ہال میں کھڑی تھیں اور ایک بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا طالبان کو رہا کرنا قوم سے غداری ہے۔ طالبان قیدیوں کی ایک سرکاری فہرست کے مطابق بہت سے قیدیوں پر سنگین نوعیت کے جرائم کا الزام عائد کیا گیا تھاا اور ان میں سے 150 سے زائد کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس فہرست میں 44 افراد کا ایک گروپ بھی شامل ہے جس میں خاص طور پر امریکا اور دوسرے ممالک کو "ہائی پروفائل" حملوں میں ان کے کردار پر تشویش ہے۔
خبر کا کوڈ : 879022
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش