0
Tuesday 11 Aug 2020 09:06

تحفظ بنیاد اسلام بل، پنجاب اسمبلی 2 گروپوں میں تقسیم ہوگئی

تحفظ بنیاد اسلام بل، پنجاب اسمبلی 2 گروپوں میں تقسیم ہوگئی
اسلام ٹائمز۔ پاکستان دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوتی دکھائی دینے لگیں، قوم تحفظ بنیاد اسلام بل کے معاملے پر دو حصوں میں تقسیم ہونے لگی۔ پنجاب اسمبلی کے گذشتہ اجلاس میں ارکان نے تحفظ بنیاد اسلام بل کو مسترد کیا تو اِس اجلاس میں ارکان کو تیاری کروا کر اس متنازع بل کے حق میں تقاریر کروائی گئیں۔ اس حوالے سے پینل آف چیئرمین میاں شفیع سمیت مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے چند اراکین نے بل کی حمایت کی ہے۔ میاں شفیع کا کہنا تھا کہ "تحفظ بنیاد اسلام" بل کو سپیشل کمیٹی، اسمبلی اور کابینہ متفقہ طور پر پاس کرچکی ہیں، اس بل میں مزید کوئی ترامیم آئیں تو اسمبلی ان پر غور و خوص کرے گی۔

وقفہ سوالات اور معمول کی کارروائی کے بعد حکومتی اور اپوزیشن ارکان مولانا محمد الیاس چنیوٹی، میاں جمیل احمد شرقپوری، بسمہ چودھری اور خدیجہ عمر فاروقی نے "تحفظ بنیاد اسلام" بل کے حق میں گفتگو کی۔ مولانا الیاس چنیوٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں سپیشل کمیٹی کا ممبر تھا، جس میں اس بل کو زیر بحث لایا گیا، 14 ماہ اس بل پر گفت و شنید ہوئی، تمام پارٹیوں نے اپنی اپنی رائے دی اور اس کے تمام پہلوؤں کو زیر غور لایا گیا۔ مولانا الیاس چنیوٹی کا کہنا تھا کہ بعدازاں اسمبلی نے یہ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا، لہٰذا اب اس پر مزید بحث کی ضرورت نہیں۔ مبصرین کے مطابق اسمبلی میں اس طرح کا متنازع ماحول مستقبل کے امن کیلئے نیک شگون نہیں۔ ملکی حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، جس سے ملک میں فرقہ واریت کو ہوا ملے گی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق پہلے اس بل کے خلاف اور اب حق میں تقریریں ثابت کرتی ہیں کہ حالات کسی اور طرف جا رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں محرم الحرام سے قبل ایسی فضا پیدا کی جا رہی ہے، جس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ بعض مبصرین نے اسے چودھری پرویزالہیٰ کی سازش بھی قرار دیا ہے کہ وہ اپنا ڈیرہ آباد رکھنے کیلئے مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں۔ دوسری جانب کالعدم سپاہ صحابہ کے رکن معاویہ اعظم بھی دوبارہ فعال ہوچکے ہیں اور ارکان اسمبلی سے رابطے کرکے بل کی حمایت کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے چند ارکان سے رابطہ کیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ بل متنازع نہیں بلکہ اس کی اشد ضرورت تھی۔

مبصرین نے کہا ہے کہ پاکستان کے آئین میں پہلے سے ہی ان جرائم کی سزائیں موجود ہیں۔ دفعہ 295 اے مذہبی جذبات مجروح کرنے پر نافذ ہوتی ہے، جس کی سزا 10 سال قید 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح 295 بی قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے پر نافذ ہوتی ہے اور اس کی سزا عمر قید ہے۔ 295 سی حضور نبی کریم (ص) یا دیگر انبیاء کی شان میں گستاخ پر لاگو ہوتی ہے، جس کی سزا موت یا عمر قید اور جرمانہ ہے۔ اسی طرح 298 اے اور 298 بی جان بوجھ پر مذہبی جذبات مجروح کرنا اور مقدس ہستیوں کی توہین کرنے پر لاگو ہوتی ہے، جس کی سزا تین سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مذکورہ بالا قوانین پہلے سے موجود ہونے کے باجود ایسا بل لانا فرقہ واریت کو ہوا دینے کے ہی مترادف ہے۔
خبر کا کوڈ : 879548
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش