QR CodeQR Code

اسرائیل کیخلاف حزب اللہ کی فتح کی 14ویں سالگرہ

اگر بیروت دھماکے میں اسرائیل کا ہاتھ ہوا تو اُسے اتنا ہی بڑا تاوان بھی ادا کرنا پڑیگا، سید حسن نصراللہ

امارات نے اسرائیل کیساتھ دوستی کا اعلان کرکے انتخابات کے میدان میں ٹرمپ کی خدمت کی ہے

16 Aug 2020 03:07

لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے سال 2006ء میں لبنانی مزاحمتی محاذ پر مسلط کی جانیوالی صیہونی جنگ کے اندر حزب اللہ کو حاصل ہونیوالی عظیم فتح کی 14ویں سالگرہ کے حوالے سے قوم کیساتھ ویڈیو خطاب میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی دشمن نے اس جنگ کو "لبنان کی دوسری جنگ" کا نام دے رکھا ہے جبکہ یہ جنگ در حقیقت ایک امریکی فیصلہ تھا جسے غاصب صیہونی رژیم کیجانب سے لبنان اور لبنانی مزاحمتی محاذ پر مسلط کیا گیا۔ انہوں نے حزب اللہ کے مجاہد شہید محسن کامل محمد کی شہادت کیبعد سے تاحال صیہونی فوج کے ہائی الرٹ رہنے کو اسرائیلی سزا کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آجکی رات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ (حزب اللہ کی) جوابی کارروائی تاحال طے شدہ ہے جبکہ اس حوالے سے وقت ہے جو اہم ہے لہذا انہیں مزاحمتی محاذ کے بھرپور جواب کا منتظر رہنا چاہئے۔


اسلام ٹائمز۔ لبنانی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے سال 2006ء میں لبنان پر مسلط کردہ 33 روزہ صیہونی جنگ میں حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں اسرائیل کو ملنے والی ذلت آمیز شکست کی 14ویں سالگرہ کے حوالے سے ویڈیو لنک پر قوم کے ساتھ خطاب کیا ہے۔ سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کی ابتداء میں کہا کہ حزب اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال، کرونا وائرس کے پھیلاؤ اور بیروت میں ہونے والے ہولناک دھماکے کے باعث، صیہونیوں پر فتح کے جشن میں صرف اسی خطاب پر اکتفاء کیا جائے۔ سید مقاومت نے غاصب صیہونی دشمن پر حاصل ہونے والی اس فتح کی سالگرہ کے حوالے سے لبنانی عوام، مزاحمتی گروپس اور شہداء کے خاندانوں کو مبارکباد پیش کی اور شہید عماد مغنیہ، شہید مصطفی بدرالدین اور شہید جنرل قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔

سید مقاومت نے اپنے خطاب کے دوران امریکی دہشتگردانہ کارروائی میں شہید ہونے والے ایرانی سپاہ قدس کے شہید کمانڈر کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سال فتح کے جشن میں ایک شہید کا پہلی مرتبہ تذکرہ ہو رہا ہے اور وہ شہید جنرل قاسم سلیمانی ہیں جنہوں نے اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے انکشاف کرتے ہوئے "جنگ تموز" (جون جولائی کی جنگ) کو ایک حقیقی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صیہونی دشمن نے اس جنگ کو "لبنان کی دوسری جنگ" کا نام دے رکھا ہے جبکہ یہ جنگ در حقیقت ایک امریکی فیصلہ تھا جسے غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے لبنان اور لبنانی مزاحمتی محاذ پر مسلط کیا گیا۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کے ساتھ سال 2000ء میں ہونے والی جنگ کا نتیجہ 'لبنانی سرزمین سے صیہونیوں کا اخراج' تھا جبکہ سال 2006ء کی 33 روزہ جنگ کے نتیجے میں حزب اللہ نے 'تزویراتی دفاعی توازن' کی اپنی سنہری حکمت عملی پر اسرائیل کو مجبور کر دیا ہے۔ سید مقاومت نے کہا کہ اس جنگ میں اسرائیل کو پہلی مرتبہ خطے کے اندر اپنی بقاء خطرے میں نظر آئی جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں صیہونی فوجی و نفسیاتی شکست کے آثار تاحال ظاہر ہو رہے ہیں جو اس ساری مدت (14 سال) کے دوران اُنہیں مزید سرنگوں بھی کرتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے 2006ء کی جنگ میں اسرائیلی شکست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ میں اسرائیلیوں نے کھلی شکست کھائی تھی اور اب وہ جان گئے ہیں کہ مستقبل میں بھی ہمارے ساتھ ہونے والی کسی بھی جنگ میں وہ حزب اللہ کو کبھی کمزور نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اب وہ (جنگ سے ہٹ کر) دوسرے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں اور لبنان کی آج کی حالت اسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔

سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب کے دوران شام کے اندر ہوئے اسرائیلی حملے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ حزب اللہ اپنے مجاہدین کی شہادت پر شدید ردعمل ظاہر کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے (حزب اللہ کے ایک مجاہد کی شہادت کے بعد خوف کے مارے) لبنانی سرحد پر وسیع (دفاعی) اقدامات بھی کر رکھے ہیں اور حتی اپنی فوجوں کو ہائی الرٹ کر رکھا ہے کہ مبادا حزب اللہ ان کو نشانہ بنا لے یا کوئی جوابی کارروائی کرے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم اس (اسرائیلی) حملے کا ضرور جواب دیں گے؛ ایک ایسا جواب جس کا ہدف 'جنگی قوانین کو مستحکم کرنا' ہو گا لہذا ایسی جوابی کارروائی انتہائی نپی تلی اور سنجیدہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے حزب اللہ کے مجاہد شہید محسن کامل محمد کی شہادت کے بعد سے تاحال صیہونی فوج کے ہائی الرٹ رہنے کو اسرائیلی سزا کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج کی رات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ (حزب اللہ کی) جوابی کارروائی تاحال طے شدہ ہے جبکہ اس حوالے سے وقت ہے جو اہم ہے لہذا انہیں مزاحمتی محاذ کے بھرپور جواب کا منتظر رہنا چاہئے۔

سید مقاومت نے گزشتہ روز طے پانے والے اسرائیل-امارات دوستی معاہدے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کو لبنان کے اندر اس فیصلے سے ہرگز جھٹکا نہیں لگا کیونکہ یہ فیصلہ ان (متحدہ عرب امارات) کی طرف سے اختیار کردہ رَستے کا منطقی انجام تھا۔ سید حسن نصراللہ نے اسرائیل-امارات دوستی معاہدے کے اعلان کئے جانے کے وقت کے حوالے کہا کہ اس معاہدے کے منظر عام پر آنے کا وقت یہ ثابت کر دیتا ہے کہ خطے کی بعض عرب حکومتیں امریکہ کی غلام ہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے زور دیتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ دوستی کا معاہدہ طے کر کے انتخابات و سیاسی میدان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک بڑی خدمت کی ہے تاہم حزب اللہ کی پیشینگوئی یہ ہے کہ آج سے لے کر امریکی انتخابات (3 نومبر 2020ء) تک یہ (عرب) حکومتیں اسرائیل کے ساتھ اپنے اپنے (دوستی) معاہدے دستخط کر دیں گی۔

انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران سے لاحق مبینہ خطرے کو بڑا کر کے دکھانے کا عرب میڈیا کا اقدام، اسرائیل کے ساتھ دوستی کے لئے رچایا گیا سراسر فریب ہے درحالیکہ وہ ایران کے ساتھ خفیہ روابط برقرار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایران و اسرائیل دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کر لیں۔ انہوں نے اسرائیل-امارات دوستی معاہدے کو حقیقت برملا ہونے کے حوالے سے ایک اچھا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پردوں کا ہٹ جانا بذات خود ایک اچھی بات ہے کیونکہ جھوٹے، خیانتکار اور کمر میں چھرا گھونپنے والوں کا چہرہ لوگوں کے لئے واضح ہونا چاہئے تاکہ عوام دوست دشمن کے درمیان تمیز کر سکیں۔

حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے اپنے خطاب کے دوران بیروت دھماکوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں 2 مفروضے موجود ہیں؛ یا یہ دھماکہ ایک حادثہ تھا یا تخریبکاری! انہوں نے کہا کہ جو کچھ حزب اللہ کے ساتھ متعلق ہے وہ مزاحمتی محاذ کی سکیورٹی ہے جبکہ پورے لبنان کی سکیورٹی حزب اللہ کے دائرۂ کار سے باہر ہے۔ انہوں کہا کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ بیروت دھماکہ کسی تخریبکاری کا نتیجہ ہے تو دیکھنا یہ ہو گا کہ اس میں اسرائیل کا ہاتھ تو نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تحقیق ہونا چاہئے اور لوگوں کو جواب دیا جانا چاہئے۔ سید حسن نصراللہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس حادثے میں اسرائیل ملوث ہوا اور تفتیش و تحقیق کی ذمہ داری (امریکی) ایف بی آئی کو سونپ دی گئی تو ان تحقیقات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ سید مقاومت نے غاصب صیہونی رژیم کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس حادثے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حزب اللہ اس کا جواب دے تو وہ حزب اللہ جو اپنے ایک اہلکار کی شہادت سے صرف نظر نہیں کرتی اور اصرار کرتی ہے کہ لڑائی میں دفاعی مساوات برقرار رہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس وسیع پیمانے پر انجام دیئے جانے والے جرم پر وہ خاموش رہے؛ لہذا اگر اس حادثے میں اسرائیلی ہاتھ ہوا تو اس (غاصب صیہونی رژیم) کو بھی اتنا ہی بڑا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔


خبر کا کوڈ: 880535

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/880535/اگر-بیروت-دھماکے-میں-اسرائیل-کا-ہاتھ-ہوا-ا-سے-اتنا-ہی-بڑا-تاوان-بھی-ادا-کرنا-پڑیگا-سید-حسن-نصراللہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org