0
Friday 21 Aug 2020 03:22
عراقی وزیراعظم کا دورۂ امریکہ

عراق میں ہماری موجودگی کا مقصد ایران کیساتھ مقابلہ ہے، عنقریب عراق سے نکل آئینگے، ٹرمپ

عراق میں ہماری موجودگی کا مقصد ایران کیساتھ مقابلہ ہے، عنقریب عراق سے نکل آئینگے، ٹرمپ
اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سرکاری دورے پر واشنگٹن آئے عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں دعوی کیا ہے کہ عراق کے اندر امریکی فورسز کی موجودگی کا مقصد ایران کے ساتھ مقابلہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ عراق میں ہماری تھوڑی سی فورسز موجود ہیں لیکن وہ اس لئے وہاں موجود ہیں کہ اگر ایران نے کوئی اقدام اٹھایا تو وہ مدد کر سکیں۔ امریکی صدر نے اپنی گفتگو کے آغاز میں بھی دعوی کرتے ہوئے ہوئے کہا عراق کے اندر تیل نکالنے کے بہت منصوبوں میں ہماری مشارکت جاری ہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ شام کے اندر اپنی محدود فوجی موجودگی برقرار رکھے گا اور اس حوالے سے مستقبل میں مزید غور و خوض بھی کرے گا۔

امریکی صدر نے ایک خبرنگار کے اس سوال کے جواب میں کہ امریکہ عراق کے اندر موجود "مسلح گروہوں" سے مقابلے اور وہاں جمہوریت کی برقراری کے لئے کیا مدد فراہم کرے گا، کہا کہ ہم جو کام کر رہے ہیں یہ ہے کہ جہاں ہم مدد فراہم کر سکتے ہیں، مدد کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ زور دیتے ہوئے کہا کہ عراق ایک خودمختار ملک ہے جو اپنا وزیراعظم اور دوسرے ذمہ دار حکمران رکھتا ہے جو اُس ملک کو چلاتے ہیں جبکہ ہم بھی ایک لمبے عرصے سے عراق میں موجود ہیں۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ ہم وہاں موجود رہے ہیں اور اب وہاں سے نکل رہے ہیں اور عنقریب عراق چھوڑ دیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے آپسی تعلقات اچھے ہیں اور ہم عنقریب تیل کا بہت بڑا معاہدہ بھی دستخط کر دیں گے۔

دوسری طرف عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی نے بھی اس پریس کانفرنس کے دوران دعوی کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے داعش کو شکست دینے اور صدام کو اقتدار سے ہٹانے میں عراق کی مدد کی ہے۔ مصطفی الکاظمی نے مزید کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ دونوں ممالک کے مشترکہ مفاد پر مبنی اور عراقی و امریکی عوام کے لئے بہتر مستقبل کے حامل مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کی حکومت عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے حوالے سے امریکی حکام کے ساتھ بغداد کے اندر متعدد نشتوں پر مشتمل مذاکرات انجام دے چکی ہے اور اسی سلسلے میں مصطفی الکاظمی اب امریکی دورے پر بھی موجود ہیں۔

یاد رہے کہ جاری سال کی ابتداء میں امریکی دہشتگردانہ ٹارگٹ کلنگ کی ایک کارروائی میں ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہدس کو رفقاء سمیت شہید کر دیا گیا تھا درحالیکہ وہ اس وقت کے عراقی وزیراعظم کی دعوت اور ایک سفارتی مشن پر عراق میں موجود تھے۔ دوسری طرف عراقی پارلیمنٹ نے بھی بن بلائے امریکی دہشتگردوں کے ہاتھوں اپنے عزیز مہمان، ہمسائے اور داعش کے خلاف جدوجہد میں شریک ایک قوی جنرل کے بہیمانہ قتل پر متفقہ قرارداد منظور کر کے امریکی فورسز کو فی الفور ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا جس پر عملدرآمد کے حوالے سے امریکی حکام تاحال لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 881558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش