0
Monday 24 Aug 2020 21:48

الزام تراشی اور گمراہی پھیلانا بنو اُمیہ کا ہتھیار تھا، علامہ سید جواد نقوی

پاکستان میں غداری کا ٹائٹل بہت سستا ہے، ہر مخالف کو غدار کہہ دیا جاتا ہے
الزام تراشی اور گمراہی پھیلانا بنو اُمیہ کا ہتھیار تھا، علامہ سید جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مہاتیر محمد سے پاکستان کو اللہ نے بچا لیا ہے، مہاتیر کے عزائم پاکستان کیلئے انتہائی خطرناک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مہاتیر نے اپنے مخالف رزاق ابراہیم کیخلاف جنسی زیادتی کا کیس بنا کر جیل میں ڈال دیا، جہاں سے وہ جیل سے ہی مہاتیر کیخلاف لڑتا رہا اور مہاتیر محمد کو نکال باہر کیا، رزاق ابراہیم پر بھی عدلیہ نے پابندی لگا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدام کو بھی استعمال کیا گیا، امریکہ صدام کیخلاف اس کے دامادوں کو استعمال کر رہا تھا، جس کا علم صدام کو ہوگیا تھا اور انہیں صدام نے گولیاں مروا دی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں غداری کا ٹائٹل بہت سستا ہے، ہر مخالف کو غدار کہہ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا مجرمانہ کام جو پاکستان میں ہوا، وہ محترمہ فاطمہ جناح جنہوں نے ایوب خان کیخلاف الیکشن لڑا، عوام کا رجحان بھی فاطمہ جناح کی طرف تھا، قائداعظم کی محبت کی وجہ سے لوگ فاطمہ جناح کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایوب خان نے پہلے مارشل لاء لگایا، پھر صدارت قائم کر دی اور جب انتخابات کو ڈھونگ رچایا تو فاطمہ جناح مدمقابل آئیں تو انہیں ہروا دیا گیا۔ الیکشن کمپین میں ہی فاطمہ جناح کو غدار قرار دیدیا گیا اور کہا گیا یہ انڈیا کیساتھ ملی ہوئی ہیں اور پاکستان کو انڈیا کے حوالے کرنا چاہتی ہیں، یہ پروپیگنڈہ بھرپور طریقے سے کیا گیا۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اتنے تسلسل سے پروپیگنڈہ ہوا کہ لوگ شک کرنے لگ گئے اور یوں فاطمہ جناح الیکشن میں ہار گئیں۔

انہوں نے کہا کہ حریف کو غدار کہہ دینے سے وہ پس پردہ چلا جاتا ہے، اس کی سیاسی و سماجی موت ہو جاتی ہے، یہ غداری کا حربہ بنو اُمیہ نے استعمال کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی لوگ بھی اسی طرح کرتے ہیں، جنہوں نے تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں، تمام مسالک میں ایک سیاسی طبقہ ہے، جو مسلک کو سیاست میں استعمال کرتا ہے، پاکستان میں غداری کے بعد دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ کسی عالم دین کو، خواہ کسی بھی مسلک کا ہو، بالخصوص اہلسنت علماء میں سے ہو۔ وہ اہلبیتؑ کی تعریف کر دے تو فوراً اسے رافضی کہہ دیا جاتا ہے، پاکستان کے بہت سے اہلسنت علماء کو رافضی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام تاریخ بھر میں ہوتا رہا ہے۔ امام شافعیؒ کو دوسرے مسالک نے رافضی کہا تھا، کیونکہ انہوں نے امیر المومنین حضرت علیؑ کی تعریف کی ہے، اہلبیتؑ کی تعریف کی ہے۔ اگر کوئی اہلسنت وحدت کے پروگرام میں آجاتا ہے تو اس کیخلاف یلغار اُٹھا دی جاتی ہے کہ یہ رافضی ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شیعہ کے اندر بھی ایسا حربہ استعمال ہوتا رہا ہے، شیعوں میں بھی ایسی الزام تراشی چلتی رہتی ہے، کوئی اہلسنت کے مقدسات کی توہین کو برا کہے تو اسے وہابی کہہ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہتھیار بنو اُمیہ کے ہیں، ممکن ہے کوئی علی علی کرتا ہو، مگر ہتھیار سارے معاویہ والے رکھے ہوئے ہیں، بہت سے ایسے ہیں، جو علی علی کرتے ہیں مگر جیب سے ریال نکلیں گے، کسی کی جیب سے ڈالر نکلیں گے، بنو اُمیہ کا تفکر کھوپڑی میں رکھ کر شیعہ بن جانا شیعہ نہیں، بلکہ شیعہ وہ ہے جو علیؑ کے اصولوں کا پیروکار ہے۔ معاویہ کی سیاست اپنانے والا معاویہ کا شیعہ ہے، وہ علی کا شیعہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مخالفین کیخلاف یہ ہتھیار استعمال نہیں کیا، بلکہ کوشش کی کہ جنگ ٹل جائے۔
خبر کا کوڈ : 882250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش