1
Monday 7 Sep 2020 22:58

"تہران" کیخلاف صیہونی فوجی اتحاد میں سب سے بڑی شکست "ابوظہبی" کو ہی ملیگی، عرب اخبار

"تہران" کیخلاف صیہونی فوجی اتحاد میں سب سے بڑی شکست "ابوظہبی" کو ہی ملیگی، عرب اخبار
اسلام ٹائمز۔ معروف عرب اخبار القدس العربی نے امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم اور اماراتی ولی عہد کے درمیان ہونے والی گفتگو کو تاریخی قرار دیئے جانے پر اپنی ایک تحلیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ بیان، غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے دوستی معاہدے کے بارے عام طور پر کہی جانے والی بات سے یکسر مختلف ہے کیونکہ شروع میں امارات نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس نے یہ معاہدہ "فلسطینی سرزمین کے قبضے پر مبنی اسرائیلی الحاقی منصوبے" کو روکنے کے لئے انجام دیا ہے لیکن اب امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان نے اماراتی دعوے کی قلعی کھول کر دی ہے۔ یاد رہے کہ مائیک پمپیو نے اتوار کے روز بنجمن نیتن یاہو اور محمد بن زائد کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ایک تاریخ ساز لمحہ قرار دیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ یہ لمحات "ایران کے خلاف امریکہ و مشرق وسطی کے حفاظتی اتحاد" کی تشکیل کا باعث بنے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق واشنگٹن و تل ابیب کی جانب سے اماراتی دعوے کی تردید کے بعد اب یہ بات واضح ہو کر منظر عام پر آ رہی ہے کہ "اسرائیل-امارات دوستی معاہدہ" دراصل ایک "فوجی-سیاسی معاہدہ" تھا کہ جس کے ذریعے متحدہ عرب امارات "امریکی ایف-35" لڑاکا طیارے حاصل کرنا چاہتا تھا تاہم صیہونیوں کی جانب سے اس اماراتی خواہش کا گلا بھی گھونٹ دیا گیا ہے۔ عرب اخبار کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو کے بیان سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ امارات-اسرائیل دوستی معاہدے کے حوالے سے کوئی "امن منصوبہ" درکار نہیں بلکہ معاملہ "اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک سیاسی و فوجی اتحاد" قائم کرنے کا ہے تاکہ امریکی حکام کی خام خیالی کے مطابق مشرق وسطی کو آگ میں جھونک کر امریکہ کو لاحق ایرانی خطرے سے بچایا جا سکے۔

القدس العربی نے مزید لکھا کہ لفظ "اتحاد" ایک دوسری قسم کے تعلقات کو ظاہر کرتا ہے جن میں ایسے "امن و امان" کا دور کا واسطہ بھی نہیں جو غاصب صیہونی رژیم نے مصر، اردن اور فلسطینی حکام کے ساتھ حاصل کیا ہے جبکہ ان روابط کا اسرائیل کے کسی بھی دوسرے عرب ملک کے ساتھ استوار سفارتی یا اقتصادی تعلقات سے بھی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیل و امریکہ کے ساتھ طے پانے والا متحدہ عرب امارات کا یہ منحوس اتحاد، یمن کے خلاف امارات-سعودی عرب فوجی اتحاد سمیت امارات کے کسی بھی ماقبل اتحاد سے بھی یکسر مختلف ہے۔ القدس العربی نے مزید لکھا کہ اس اتحاد میں متحدہ عرب امارات یقینا ایک ایسی صورتحال میں باقی رہے گا کہ جہاں اُس پر ہمیشہ ہی حکم چلایا جائے گا نہ یہ کہ وہ حکم دے پائے لہذا اس معاہدے کا مقصد یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات "امریکی سرزمین" کو لاحق "ایرانی خطرے" سے دفاع کرے تاہم اس حوالے سے امریکیوں کی جانب سے "مشرق وسطی" کے بارے کئے جانے والے تمام دعوے چند الفاظ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔

معروف عرب اخبار نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ "اماراتی سرزمین کا دفاع کیسے کیا جائے گا؟" تاکید کی کہ جاسوسی، مالی اور نقل و حمل سے متعلق معاملات کے علاوہ یہ معاہدہ تمام کا تمام غاصب صیہونی رژیم اسرائیل کے حق میں ہے کیونکہ وہ تاحال فلسطینی سرزمین پر قبضے کی اپنی گھناؤنی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے اور دوسری طرف متحدہ عرب امارات کو امریکی ایف-35 طیاروں کی فروخت کے حوالے سے کوئی قابل غور بات موجود نہیں۔ القدس العربی نے مزید لکھا کہ اس حوالے سے بھی کوئی شواہد موجود نہیں کہ امریکہ عرب ممالک کے جغرافیے میں کوئی تبدیلی لانا چاہتا ہو لہذا ایران کے خلاف اس فوجی اتحاد میں امارات کا محل وقوع، ایک ایسے فریق کا محل وقوع ہے جو بری طرح نشانہ بنایا جائے گا اور سب سے بڑی شکست اسی کی ہو گی کیونکہ وہ ایرانی توپخانے، جنگی بحری بیڑوں اور فوج کے انتہائی قریب واقع ہے۔
خبر کا کوڈ : 884888
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش