0
Saturday 26 Sep 2020 18:32

پنجاب کے تعلیمی اداروں سے بلوچستان کے طلبہ کے سکالر شپس کے خاتمے کیخلاف مظاہرے

پنجاب کے تعلیمی اداروں سے بلوچستان کے طلبہ کے سکالر شپس کے خاتمے کیخلاف مظاہرے
اسلام ٹائمز۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء کیلئے سکالر شپس اور مخصوص نشستوں کے خاتمے کے خلاف بلوچ طلباء کا احتجاج مزید شدید ہو گیا۔ طلباء کا ملتان میں احتجاج جاری جبکہ گزشتہ روز اسلام آباد اور لاہور میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام ملتان کے احتجاجی طلباء کیساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر احتجاجی مظاہرے منعقد کئے گئے۔ احتجاجی مظاہروں میں طلباء و طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مظاہرین تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء کیلئے سکالر شپس اور مخصوص نشستوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان کی طرف سے اپنے مطالبات کے حق میں لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو پچیس دن مکمل ہوگئے ہیں مگرحکام کی جانب سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی، بلوچ طلباء کونسل کے رہنما وقاربلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم گزشتہ پچیس دن سے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن حکام اور یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا اور قلم کی دنیا سے وابستہ لوگ ہماری اس پرامن جدوجہد کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ چیئرمین وقار بلوچ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر ہمارے لیے افسوس ناک ہے کہ ہماری قوم کے نوجوان اور سیاست دان ہماری اس احتجاجی تحریک سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ انہوں نے قوم اورسیاست دانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہماری تحریک سے وابستہ رہیں اور ہماری آواز کو اعلٰی حکام تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ انہوں نے اس موقع پر بلوچستان اور پنجاب حکومت کی طرف سے سرد مہری پر اظہارِ افسوس کیا اور کہا کہ یہ امر ہمارے لیے باعث تشویش ہے کہ جمہوری حکومت کے ہوتے ہوئے ہماری آواز کو حکومت سن نہیں پا رہی اور نہ ہی ہمارے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کی طرف سے فیس وصولی کی پالیسی کو روکیں اور ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائلی علاقوں کیلئے کوٹے پر اسکالرشپ کا اجراء کرنے کیساتھ ان کیلئے ہرشعبے میں کوٹے کی تخصیص ممکن بنائی جائے۔

دریں اثنا بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام لاہور پریس کلب کے سامنے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلباء کے اسکالر شپ کی بحالی کے لئے احتجاجی کیمپ لگایا گیا، جس میں طلباء، مزدور اور سماجی کارکنوں سمیت خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر احتجاجی کیمپ میں موجود شرکاء نے بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلباء کی سیٹوں کی بحالی کے لیے نعرہ بھی لگائے۔ مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہاؤ الدین یونیورسٹی ملتان کے طلباء پچھلے 24 روز سے جامعہ کے باہر کیمپ لگائے بیٹھے ہیں اور انکا یہ احتجاج یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء کے اسکالر شپ ختم کرنے کے فیصلہ کے خلاف ہے۔ ایک طرف ان طلباء کے اپنے علاقوں میں اعلٰی تعلیم کی سہولیات محدود ہیں یا اکثر علاقوں میں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں اور اب شہری مراکز کا رخ کرنے پر مجبور ان طلباء سے اسکالر شپ بھی چھین لی گئی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر محنت کش خاندانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء پر ہوتا ہے۔ مقررین نے کہا کہ عالمی وباء کرونا سے پہلے ہی طلباء کی تعلیم متاثر ہوئی ہے۔ اب جامعہ ملتان کی جانب سے اسکالر شپ کا خاتمے سے بلوچستان کے طلباء اور زیادہ پریشان ہیں۔

انہوں نے حکومت پنجاب اور بلوچستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ملتان یونیورسٹی سمیت پنجاب میں زیر تعلیم تمام طلباء کی اسکالرشپ فوری بحال کی جائیں تاکہ بلوچستان کے طلباء اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ دوسری جانب یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف ہے کہ بلوچستان حکومت کے ڈیفالٹر ہونے کی وجہ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلباء کو اب سکالر شپ نہیں مل سکتی ہے۔ اسکالر شپ کا آغاز پی پی پی حکومت میں آغازِ حقوقِ بلوچستان پیکچ کی وجہ سے شروع ہوا تھا۔ جس کے مطابق بلوچستان کے طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلے لے سکتے تھے اور اس کے علاوہ وظیفہ حاصل کرنے کے بھی اہل قرار پائے تھے۔ وظیفہ تو نہ مل سکا لیکن طلباء کے لئے یوں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے کچھ مواقع پیدا ہوئے مگر 2017ء میں اوپن میرٹ پر ہونے والے داخلوں کے نام پر اسکالر شپ ختم کر دیئے گئے اور 2 فیصد کوٹہ رکھا گیا، جس سے بلوچستان سے دو دو اور فاٹا سے چار چار طلباء پنجاب کے تعلیمی اداروں کے ہر شعبہ میں پڑھنے جا سکتے تھے۔

حالیہ صورتِ حال یہ ہے کہ اس کوٹہ پر آنے والے طلباء کے لئے بھی اسکالر شپ ختم کر دیئے گئے ہیں۔ بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلباء داخلے تو لے سکتے ہیں مگر انہیں کوئی اسکالر شپ نہیں دیئے جائیں گے اور ٹیوشن فیس سے لے کر ہاسٹل کی فیسیں بھی اب طلباء کو خود برداشت کرنی ہونگی۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ 2017ء سے بلوچستان کی صوبائی حکومت نے بلوچستان کے طلباء کے اسکالر شپ کی مد میں جو رقوم پنجاب کی جامعات کو بھیجنا تھیں، ان رقوم کو ادا کرنے سے حکومت قاصر رہی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2017ء سے اب تک پھر بھی جیسے تیسے طلباء کے لئے جامعہ نے اسکالر شپ کا انتظام کیا مگر اب حالیہ ایچ ای سی بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد ان اسکالر شپس کا بوجھ اٹھانا جامعہ کے لئے ممکن نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 888590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش