0
Monday 28 Sep 2020 23:49

جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ جنگی اقدام تھا، امریکہ اسکے بُرے نتائج کا متحمل نہیں ہوسکتا، ماہرین

جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ جنگی اقدام تھا، امریکہ اسکے بُرے نتائج کا متحمل نہیں ہوسکتا، ماہرین
اسلام ٹائمز۔ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی آمد اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ہار جانے کی صورت میں امریکہ کے اندر ممکنہ وسیع خانہ جنگی کے حوالے سے جنیوا سے چلنے والی ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم "سفیئر" (The Sphere Project) کی جانب سے "کسی ملک کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے امریکی صدر کے صوابدیدی حکم کی صلاحیت" کے عنوان سے ایک نشست منعقد کی گئی، جس میں 3 امریکی تھنک ٹینکس کے قانونی ماہرین نے بھی شرکت کی۔ اس نشست میں شریک امریکی تھنک ٹینک کیٹو انسٹیٹیوٹ (Cato Institute) کے نائب صدر جین ہیلی (Gene Healy)، قدیم امریکی قانونی فرم بیکر ہاسٹیٹلر (BakerHostetler) کے رکن ڈیوڈ ریوکن (David B. Rivkin) اور امریکی تھنک ٹینک بروکنگز (Brookings) کی محققہ مارگریٹ ٹیلر (Margaret Taylor) نے ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا موجب بننے والی امریکی ٹارگٹ کلنگ کے تناظر میں "امریکی صدر کی جانب سے اعلان جنگ" کی قانونی حیثیت پر گفتگو کی۔

کیٹو انسٹیٹیوٹ کے ای مجلے کے مطابق جین ہیلی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امریکی صدر صوابدیدی طور پر کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی طاقت کا حامل ہے، کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ہی ہے اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ کسی دن خراب موڈ میں بیدار ہو جائے اور ایران یا شمالی کوریا پر حملے کا فیصلہ کر لے تو امریکی فوج بھی اس کے حکم کی تعمیل شروع کر دے گی، جس کے باعث یقینی طور پر میزائل حرکت میں آجائیں گے جبکہ اس اقدام کے بُرے اثرات ہمیں بھگتنا پڑیں گے۔ ڈیوڈ ریوکن نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کا حکم ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے براہِ راست جاری کیا گیا تھا، دعویٰ کیا کہ اگر ہمارے سامنے ایک ایرانی جنرل ہو، جو امریکہ کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہو تو کیا ہم اس کو رَستے سے ہٹا بھی نہیں سکتے؟ یہ تو بے معنی بات ہے!

جین ہیلی نے اس دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصول دوسرے ممالک پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ جین ہیلی نے کہا کہ بطور مثال ڈونلڈ ٹرمپ کے محاکمے میں ایک بات سامنے آئی تھی کہ جیولن میزائل (FGM-148 Javelin Anti-Tank Missile) جو ہم نے یوکرائن کو فراہم کئے ہیں، روسی ٹینکوں کے قاتل ہیں، جن سے روسی مارے جاتے ہیں تو اگر یہ میزائل بہت سے روسیوں کو مار ڈالیں تو کیا (روسی صدر) ولادیمیر پیوٹن کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ساتھ (سی آئی اے کی ڈائریکٹر) جینا ہاسپل (Gina Cheri Walker Haspel) کو نشانہ بنانے کا حق مل جائے گا؟ اور اگر بالفرض ایسا کام ہو جائے تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھ بیشمار روسیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؟ اس پر ڈیوڈ ریوکن نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے امریکی جنگی اقدام کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں اور اگر مجھ سے ایک وکیل کی حیثیت سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کہ بین الاقوامی قوانین اور امریکی آئین کی رو سے جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ایک جنگی اقدام تھا، لیکن وہ ہمارے ساتھ جنگ کی حالت میں ہیں؛ اس میں مسئلہ کیا ہے۔؟

دوسری طرف بروکنگز کی محقق مارگریٹ ٹیلر نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر امریکی مشرق وسطیٰ کے اندر ایران کے ساتھ جنگ چھیڑنا نہیں چاہتے، جبکہ جنرل سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ میں مشکل یہ ہے کہ اس امریکی کارروائی کے منفی نتائج غیر واضح ہیں۔ مارگریٹ ٹیلر نے کہا کہ اس حوالے سے امریکی سینیٹر پریشان تھے کہ کیا یہ اقدام ہمیں ایران کے ساتھ ایک وسیع جنگ میں دھکیل دے گا؟ مارگریٹ ٹیلر کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ امریکی یہ نہیں چاہتے اور اسی لئے ہمارے عوام نعرہ لگاتے ہیں کہ ہم مشرق وسطیٰ کے اندر کسی نئی جنگ میں الجھنا نہیں چاہتے۔ واضح رہے کہ امریکی تجربہ کار خبرنگار باب وڈوارڈ (Bob Woodward) نے اپنی تازہ منتشر ہونے والی کتاب "غضب" (Rage) میں لکھا ہے کہ ایرانی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ پر مبنی ٹرمپ کا فیصلہ اس حد تک شدت پسندانہ اور بے رحمانہ تھا کہ جس نے حتی ایران مخالف ڈیموکریٹ سینیٹر لنڈسے گراہم (Lindsey Olin Graham) کو بھی پریشان کرکے رکھ دیا تھا جبکہ لنڈسے گراہم نے ٹرمپ کو اس فیصلے سے دستبردار کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
خبر کا کوڈ : 889020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش