0
Thursday 1 Oct 2020 10:13
ایک ہی مقصد کیلئے دو دو بار رقوم نکالے جانے کا انکشاف

پشاور، ڈی ایچ کیو ڈیرہ میں جاری کرپشن، پبلک اکاونٹس کمیٹی میں زیر بحث

5.82 ملین کی خطیر رقم سے خریدی گئی سی ٹی سی سکین چلی ہی نہیں
پشاور، ڈی ایچ کیو ڈیرہ میں جاری کرپشن، پبلک اکاونٹس کمیٹی میں زیر بحث
اسلام ٹائمز۔ سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں ایم ٹی آئی، ڈی ایچ کیو ہسپتال ڈیرہ اسماعیل خان اور خلیفہ گل نواز ہسپتال پشاور کے آڈٹ پیراز کے حوالے سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں چیئرمین پی اے سی سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق احمد غنی کے علاوہ ممبران صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان، ادریس خان، احمد کریم کنڈی، بابر سلیم سواتی، آغاز اکرام گنڈا پور اور فضل شکور خان نے شرکت کی جبکہ معاون محکمہ جات میں محکمہ خزانہ، قانون، آڈٹ اور سیکرٹری ہیلتھ سید امتیاز حسین شاہ شریک ہوئے۔ ڈی ایچ کیو ڈیرہ اسماعیل خان کے سال 2010-11 میں مبلغ 20.56 ملین کی بے قاعدگی پر کمیٹی کو بتایا گیا کہ تب کے ایم ایس اور سٹور کیپر کے خلاف محکمانہ کارروائی میں نہ صرف ان دونوں اشخاص کو نوکری سے برطرف کیا گیا ہے بلکہ ان سے رقم کی وصولی کے احکامات بھی جاری ہو چکے ہیں۔ کمیٹی نے پیرا پر فیصلہ ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دیا اور ہسپتال ہذا کو ہدایات جاری کی کہ متعلقہ کیس کے حوالے سے مکمل دستاویزات آڈٹ اور پی اے سی کو فراہم کر دی جائیں۔ اس کے علاوہ ایک قبل از پی اے سی اجلاس بلانے اور اس کیس کے حوالے سے مفصل ملاقات کی ہدایات بھی جاری کی گئی۔

اجلاس کے دوران سپیکر مشتاق غنی نے ہسپتال کے ایک افسر کو اجلاس کا ماحول خراب کرنے پر کمرے سے باہر نکال دیا اورسخت ہدایات جاری کیں کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ایک انتہائی ذمہ دار اور سنجیدہ فورم ہے اس میں تمام لوگ انتہائی ذمہ داری کے ساتھ شریک ہوں اور تنظیم اور آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ اسی ہسپتال اور متعلقہ اشخاص کے حوالے سے پانچ مزید پیراز کو اگلے پی اے سی تک ملتوی کر دیا گیا اور ہسپتال ہذا کو پابند کیا گیا کہ وہ مکمل دستاویزات کمیٹی کو فراہم کریں۔ ڈی ایچ کیو، ڈی آئی خان میں سال 2012 میں 5.82 ملین کے رقم سے خریدے گئے سی ٹی سکین مشین جوکہ موجودہ وقت میں خراب پڑی ہے کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا کہ سپلائر خراب مشین کو ٹھیک کرنے اور اس کی وارنٹی بڑھا دے، اس شرط پر سپلائر کو بقایا رقم کی ادائیگی ہو گی۔ اس موقع پر سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی نے ہسپتال ہذا کی کارکردگی پر سوال اٹھایا اور کہا کہ عرصہ دراز سے خراب پڑی سی ٹی سکین مشین پر اب تک کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ مشین غریب لوگوں کی سہولت کیلئے لگائی جاتی ہے جبکہ حقیقت میں لوگ بازار سے ایکسرے اور سی ٹی سکین کروارہے ہوتے ہیں۔

ایم ٹی آئی کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہسپتال کو مکمل طور پر بااختیار بنایا جائے اور وہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ لوگوں کو صحت کی سستی اور جلد ی سہولت مل سکے۔ ہسپتال ہذا میں نرسز کا اپنی جگہ پرائیویٹ لوگوں کو کرایہ پر لاکر ان سے نرسنگ کی خدمات لینے کے حوالے سے محکمہ سخت قوانین بنائے اور تمام ایم ٹی آئی ہسپتالوں کو بھی مانیٹرنگ سسٹم میں پابند کیا جائے تاکہ وہاں بھی مانیٹرنگ کے لوگ جا کر پوچھ گچھ کر سکیں۔ اس ہسپتال میں سال 2010، 2011 میں ہسپتال ہذا کے تب کے ایم ایس نے مبلغ 1.87 ملین کی رقم ادویات کی خرید کیلئے نکالی جبکہ اسی رقم کو دوبارہ دوائیوں کی خرید کیلئے ضلعی اکاونٹ نمبر 4 سے نکالا گیا، اس طرح ایک ہی مقصد کیلئے دو دو بار رقوم نکالی گئیں۔ چیئر مین پی اے سی سپیکر مشتاق غنی نے سیکرٹری ہیلتھ کو اس معاملے کی چھان بین کرنے ریکوری اور ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی کی ہدایات جاری کی اور اس کی رپورٹ پی اے سی میں جمع کرانے کا پابند کیا۔ خلیفہ گل نواز ہسپتال پشاور میں سال 2010-11میں مبلغ 2144100 روپے کی مشکوک ادائیگی کے حواے سے جب پیرا کا جائزہ لیا گیا تو اجلاس کو بتایا گیا کہ ہسپتال ہذا کی طرف سے کوئی انتظامی افسر موجود ہی نہیں، جس پر سپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی نے ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو مذاق نہ بنائیں۔ انہوں نے ہسپتال کو ہدایات جاری کی کہ اگلے اجلاس سے پہلے ریکوری اور ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی رپورٹ کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوں۔
خبر کا کوڈ : 889467
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش