0
Friday 2 Oct 2020 19:46
انڈیا، امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل پاکستان میں فرقہ واریت کیلئے کام کر رہے ہیں

پاکستان میں امن کیلئے تمام مکاتب فکر اپنی صفوں کے شرپسندوں کو بے نقاب کریں، علامہ جواد نقوی

فرقہ واریت کو ہوا دینے والوں کو بے نقاب نہ کیا گیا تو یہ اسلام و پاکستان کیلئے خطرہ ثابت ہونگے
پاکستان میں امن کیلئے تمام مکاتب فکر اپنی صفوں کے شرپسندوں کو بے نقاب کریں، علامہ جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور کی مسجد بیت العتیق میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے سے عوام مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہیں جبکہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، معیشت کی بہتری کیلئے کردار حکومت کا ہوتا ہے، سابقہ حکومت نے معیشت کو تباہ کیا لیکن موجودہ حکومت نے رہ جانیوالی کسر بھی پوری کر دی، جس کے عام آدمی کی زندگی پر بہت منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے ضروریہ اور بجلی روزانہ کی بنیاد پر مہنگی ہو رہی ہیں، گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور سردیوں میں گیس کی بندش کا بھی بتا دیا گیا ہے۔ دواوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے، آٹا اور چینی مہنگے بھی ہیں اور ناپید بھی ہیں، اب کہا جا رہا ہے باہر سے چینی منگوا رہے ہیں جو سستے داموں منگوا کر مہنگے داموں فروخت کریں گے، وزیراعظم بھی اس مافیا کا اعتراف کرچکے ہیں۔ حکومت کے دو سال کے اندر ملک میں 900 فیصد دوائیں مہنگی ہوئی ہیں، دو روپے میں تیار ہونیوالا انجکشن 27 سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ یہ سسٹم عالمی مالیاتی اداروں کے مشیروں نے بنایا ہے، جو یہاں اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔

علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ ان مشیروں کا کام عالمی اداروں کے قرض کی قسط کیلئے پیسے جمع کرنا ہوتا ہے، تاکہ پاکستان قرض کی قسط دے سکے، تو یہ ساری مہنگائی اس وجہ سے ہے، اشیاء مہنگی کرکے قسط ادا کی جاتی ہے، ڈالر مہنگا ہونے سے ہمیں زیادہ پیسے دینا پڑتے ہیں، مہنگائی کرکے حکومت اپنے خرچے بھی پورے کر رہی ہے اور قرضے بھی اُتار رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مہنگائی سے توجہ ہٹانے کیلئے مختلف ڈرامے دکھا رہی ہے، ارطغرل غازی دکھایا جا رہا ہے، اس سے زیادہ خطرناک سیاسی ڈرامے ہیں، جو ملک میں شروع کئے جاتے ہیں، نواز شریف کی تقریر، شہباز شریف کو اندر کر دیں، نواز شریف کو ملک میں لائیں، ساتھ ٹی وی ٹاک شوز، یہ سب ڈرامے ہیں، جنہیں میڈیا صبح و شام اچھالتا ہے، نارمل آدمی پاکستانی ٹی وی چینلز کی یہ گفتگو نہیں سن سکتا، حیرت ہے پاکستانی قوم ابھی تک سن رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرقہ واریت کی لہر کے خلاف حکومت سنجیدہ کیوں نہیں؟ اس لئے کہ کورونا نے حکومت کو کافی سہارا دیا، اب کورونا کے بعد لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے فرقہ واریت کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اپوزیشن نے دو سال حکومت کیساتھ مل کر عوام کا مذاق اُڑایا، دو سال گالم گلوچ اور الزام تراشیوں میں گزار دیئے، یہ ان کی دو سالہ کارکردگی ہے۔ اب ان کے اندر رسہ کشی شروع ہوئی ہے، پہلے اور انداز میں سیاست کر رہے تھے، اب سیاسی رسہ کشی شروع ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اسلام آباد میں اے پی سی بلائی اور اس میں حکومت کو گرانے کا عزم کیا گیا اور حکومت نے ان کی گرفتاریوں کا فیصلہ کیا، یوں ایک نیا ڈرامہ چلا دیا گیا ہے۔ عوام مہنگائی بھول کر اس پر بحث کر رہے ہیں کہ کون گرفتار ہوا ہے، کون گرفتار ہوگا، کون جیل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی رسہ کشی سے ملکی حالات مزید خراب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، دونوں حکومت اور اپوزیشن نے عوام کو بیوقوف بنایا ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات بھی اہم موضوع ہے، یہ انتخابات 15 نومبر کو ہونے جا رہے ہیں۔ حکومت الیکشن جیتنے کیلئے کچھ اقدامات کرنا چاہ رہی ہے، حکومت نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی بات کرنی تھی، مگر اس اجلاس میں اپوزیشن والے گئے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عبوری صوبے کا معنی کسی کو معلوم بھی نہیں، اپوزیشن نے اس حوالے سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے الیکشن کیلئے سیاسی رسہ کشی سے اپوزیشن کا نقصان ہوگا نہ حکومت کا بلکہ نقصان عوام کا ہوگا، ہاتھی جب لڑتے ہیں تو کھیت تباہ کرکے چلے جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان ایک کھیت ہے اور پورے ملک سے سیاسی ہاتھی وہاں جا کر لڑیں گے اور کھیت تباہ کرکے آئیں گے۔ جی بی کے عوام اس لڑائی سے لطف اندوز ہونے کیلئے مکمل تیار ہیں۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں ان انتخابات میں اندرونی ہی نہیں بیرونی ہاتھیوں کی بھی مداخلت ہے اور بیرونی ہاتھی اندرونی ہاتھیوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ گلگت کی حالت یہ ہے کہ گلگت بلتستان سے ایم کیو ایم نے بھی سیٹ جیتی ہے، کراچی سے ہارنے والی جماعت گلگت میں جیت گئی۔ جی بی میں دو طاقتور ہاتھی ہیں، ایک مودی اور دوسرا چائینہ، پیچھے ان کے سپورٹرز ہیں، جن میں عرب شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام یاد رکھیں، یہ عالمی دنگل سجنے والا ہے، اس میں عوام نے اہم کردار ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت میں مذہبی جماعتیں بھی الیکشن میں شامل ہیں، جی بی میں عوام عقائد کے حوالے سے بھی مضبوط ہیں اور مذہبی جماعتیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے مذہب کا کارڈ کھیل رہی ہیں، عوام کسی اور جھانسے میں آئیں نہ آئیں، مذہبی جماعتوں کے جھانسے میں ضرور آجاتے ہیں۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ پاکستان میں انتخابی سسٹم ایسا ہے کہ دو چوروں کو لاکر کھڑا کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک کا انتخاب کر لیں، عوام کو مجبور کیا جاتا ہے کہ کرپٹ لیڈروں کو ہی چنیں، کیا ہمارے پاس پاکیزہ راستہ نہیں؟ ہمارے پاس راستہ ہے، امامت پاکیزہ راستہ ہے، صحیح اور غلط میں درست کا انتخاب کریں، نہ کہ دو غلط رکھ کر کہیں ایک غلط کو چن لیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی جماعت پاکستان میں صاف نہیں، سب کو آزما کر دیکھ چکے ہیں، گلگت کے عوام نے گندم کی سبسڈی ختم ہونے پر دھرنا دیا ہوا تھا، الیکشن کے بعد ہر بات کیلئے دھرنا دینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ دو برائیوں میں سے ایک برائی کا انتخاب نہ کریں بلکہ ہمیشہ درست راستے کا انتخاب کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پلاننگ کے تحت فرقہ واریت کو شروع کرایا گیا ہے، ساری قوم الرٹ بھی تھی، اس کے باوجود یہ ہوگیا، پہلے سوشل میڈیا سے کام شروع ہوا اور پھر تیل چھڑکتے گئے اور آگ بڑھتی گئی اور پھر تکفیری ریلیاں اور یزید زندہ باد کے نعرے لگے اور سب کچھ برملا ہونے لگا۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ فرقہ واریت میں بعض حکومتی اہلکاروں اور وزیراعظم کے مشیروں اور اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے فرقہ واریت کو بڑھاوا دیا، ممکن ہے انہوں نے حکومتی پالیسی کے مطابق نہ کیا ہو، اپنی وابستگی کے تحت کیا ہو، تو دیکھا جا سکتا ہے کون ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں تکفیریوں کی کالعدم جماعت سے حکومتی اہلکار مل  رہے ہیں، ان کی ریلیوں کی قیادت کر رہے ہیں، ارکان پارلیمنٹ مل رہے ہیں، یہ نظرانداز کرنیوالی باتیں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس معاملے کو کنٹرول کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی، عوام نے اس میں مثبت کردار ادا کیا ہے، جس طرح کی آگ لگانے کی کوشش کی گئی ہے، اس طرح عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ فرقہ واریت کو روکنے میں قومی سلامتی کے اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے، ریاستی اداروں نے تمام مسالک کے نمائندوں کو بلا کر ایک نشست کی ہے اور تمام مکاتب فکر کے علماء کو بلا کر ہدایات دی ہیں۔ اس میٹنگ میں شریک ہر شخص نے اپنے اپنے انداز میں باتیں کی ہیں۔ اس میٹنگ کے بعد ریلیوں کا سلسلہ تھم گیا ہے اور مفتیوں کے تیور بھی ٹھیک ہوگئے ہیں، اس سے ثابت ہوگیا ہے کہ اس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اس میٹنگ میں کہا گیا ہے کہ 100 ملین ڈالر پاکستان کے اندر محرم کیلئے تقسیم ہوئے ہیں، تاکہ فرقہ واریت کو ہوا دی جا سکے۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اس میٹنگ میں کہا گیا کہ دیکھنا ہے کہ کس نے یہ پیسہ لیا ہے اور اس کے بدلے میں کیا کیا گیا ہے، مفتیوں نے اپنی حیثیت نظر انداز کرکے یزید زندہ باد والی ریلیوں میں شرکت کی، مفتیوں نے یہ کام مفت میں نہیں کیا، بلکہ ظاہر ہے رقم لے کر ہی کیا ہوگا، اب اداروں کو دیکھنا ہوگا کہ یہ رقم کہاں استعمال کی گئی ہے۔ کس نے دی ہے اور کس کو دی ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اداروں نے کہا ہے کہ ہم کھوج لگائیں گے، کس کس کو ملا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کس ملک کا کون سا سفیر کس کس سے ملا ہے، اس کے بعد پتہ چل جائے گا کہ کس کس کو رقم دی گئی ہے اور یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ سفیر کس کس سے ملا ہے۔ علامہ جواد نے کہا کہ سکیورٹی اداروں نے علماء کو ہدایت کی ہے کہ وہ کمیٹی بنائیں اور اس میں قانون سازی کی جائے اور اس فرقہ واریت کا تدارک کیا جائے۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ریاستی اداروں نے بروقت کارروائی کی ہے اور وقت پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ مثبت کوشش ہے، جس کے اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ کمیٹی کو 15 اکتوبر تک کی ڈیڈلائن دی گئی ہے کہ وہ ضابطہ اخلاق تیار کرکے 15 اکتوبر کو جمع کروائیں۔ اب لگ رہا ہے کہ پاکستان میں پائیدار امن قائم ہو جائے گا۔ ان علماء کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے مسلک میں موجود شرپسندوں کی خود نشاندہی کریں، پاکستان کے تمام شیعہ پاکستان میں امن چاہتے ہیں، اہلسنت بھی ملک میں امن چاہتے ہیں، البتہ ہر فرقہ میں چند عناصر ہین، جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔ شیعہ میں بھی چند ایسے ہیں، جو شیعہ نہیں ہیں بلکہ لبادہ اُوڑھ کر شیعوں میں داخل ہوگئے ہیں، اسی طرح سنیوں میں بھی خارجی داخل ہوگئے ہیں۔ اگر ان کی نشاندہی کر دی جائے تو ملک میں امن قائم ہوسکتا ہے۔

علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ انڈیا، امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل پاکستان میں فرقہ واریت کیلئے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاستی اداروں کو شرپسندوں کے نام نہ دیئے گئے تو پھر بھی یہ ادارے اپنے طور پر کام کریں گے، اس لئے اب سکیورٹی ادارے طے کرچکے ہیں کہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے، اس لئے اگر شیعہ، سنی، دیوبندی تعاون کریں گے تو یہ ملک سے تعاون ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم قرار دے کر ان کیساتھ ملاقاتیں ہو رہی ہیں، یہ پھر کیسے کالعدم ہیں، ہر فیصلہ سازی کے اجلاس میں یہی شریک ہوتے ہیں تو پھر ان کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا ہے، فرقہ واریت بھی یہی پھیلاتے ہیں اور فرقہ واریت روکنے کیلئے بھی اس اجلاس میں شریک بھی یہی ہو جاتے ہیں۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ امن قائم کرنا ہے تو کالعدم جماعتوں کے لوگوں کو لاپتہ کر دو، ملک میں امن قائم ہو جائے گا، کالعدم لوگوں کو پروٹوکول نہ دو، ریلیوں کی اجازت نہ دو، ان کو کالعدم ہی رکھو تو کوئی فرقہ واریت ہوگی نہ دہشتگردی۔

انہوں نے کہا کہ مفتی عالم ہونے کا دعویٰ تو رکھتے ہیں، لیکن ان کا کام عالمانہ نہیں، تشیع میں نصیری اور غالی ہیں، شیعوں میں ایم آئی سکس کے لوگ گھسے ہوئے ہیں، ان کے نام حکومت کے پاس بھی ہیں، ان کے نام عوام کو بھی پتہ ہیں، سرکاری اداروں کو بھی پتہ ہے، تنظیموں کو بھی پتہ ہے، یہ افراد تعداد میں انتہائی قلیل ہیں، لیکن امن، اتحاد، وحدت اور صلح کے حامی بہت زیادہ ہین، امن پسند کروڑوں ہیں اور یہ فتنہ باز پورے ملک میں صرف 100 ہوں گے۔ علامہ جواد نقوی نے کہا کہ پاکستان میں شیعہ علماء سیکڑوں کی تعداد میں ہیں، اگر تمام شیعہ علماء متحد ہو جائیں، تو آپ دیکھ سکیں گے کہ یہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، ان میں بہت سے موثر علماء ہیں، مگر یہ سارے سہمے ہوئے ہیں، ان پر 100 فرقہ بازوں کی دھاک ہے۔ وہ بدتمیز ہیں، گستاخ ہیں، گالی دیتے ہیں اور یہ علماء گھبراتے ہیں کہ ان کیخلاف بات کی تو یہ گالی گلوچ شروع کر دیں گے، علماء ان تہمتوں اور گالیوں سے بچنے کیلئے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح اہلسنت میں بھی ہیں۔

اہلسنت میں بھی بابصیرت اور جید علماء ہیں، مفتی رفیع عثمانی نے 21 اگست کو جمعہ کے خطبے میں کہا شیعہ ہمارے بھائی ہیں، مسلمان ہیں، لیکن تین دن بعد مٹھی بھر دہشتگردوں نے اس عالم دین پر دباو ڈالا، گالیاں دیں، تین دن بعد اس عالم دین نے اپنا بیان واپس لے لیا۔ ہر مسلک میں مٹھی بھر گروہ ہیں، جو گالیاں دیتے ہیں، گالم گلوچ کرتے ہیں اور یہ علماء ان کے سامنے خاموش ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام مسالک کے علماء سے عرض کر رہا ہوں، میں ادنیٰ طالبعلم ہونے کی حیثیت سے عرض کر رہا ہوں کہ آپ انبیاء کے وارث ہیں، علماء ان سے خوفزدہ نہ ہوں، علماء بتائیں امام حسینؑ ذرہ بھی خوفزدہ ہوئے؟ نہیں، جب مقصد نیک ہو تو دشمن کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ ان کا اثر لینا ہی ان کی تائید ہے، جو دہشتگردوں سے ڈر گیا، اس نے ان کا ساتھ دیا، علماء اپنی صفوں کی تطہیر کریں اور امام حسینؑ کا کردار ادا کریں، اگر اسلام، تشیع اور پاکستان کو بچانا ہے تو سینہ سپر ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم خاموش ہوگئے تو یہ ذلت کی زندگی ہے، خوف کا لبادہ اُتار دیں اور سیرت طیبہ کو اپنائیں اور قیام کریں، یہ وقت ہے، تمام مسالک کے علماء متحد ہوں، تاکہ یزیدیت کو پیغام مل جائے کہ یہاں یزیدیت کا طرفدار کوئی نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 889770
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش