0
Friday 16 Oct 2020 15:21

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی اے سے ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق وضاحت طلب کر لی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی اے سے ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق وضاحت طلب کر لی
اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر پابندی سے متعلق وضاحت طلب کرلی۔
ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار، پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کے نائب چیئرمین عابد ساقی، صحافی مظہر عباس اور سابق وزیر اطلاعات جاوید جبار کو مذکورہ معاملے میں عدالتی معاون مقرر کردیا۔ عدالت نے ان تمام افراد کو خاص طور پر پی ٹی اے کی جانب سے 2016ء ایکٹ میں تفویض کردہ اختیارات کے غلط استعمال جو آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-اے میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے سے متعلق سوال پر معاون مقرر کیا۔

درخواست گزار اشفاق جٹ نے اپنے وکیل اسامہ خاور کے توسط سے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ ایک معروف ایتھیلیٹ ہیں اور انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے 2016ء میں "ورلڈ چیمپئن شپ آف کک باکسنگ" بھی جیتی تھی۔ وکیل کے مطابق درخواست گزار پی ٹی اے کی جانب ٹک ٹاک کیخلاف لیے گئے اقدامات سے متاثر ہوئے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک شہریوں کو اظہار رائے کا حق استعمال کرنے اور اپنے صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وکیل نے مؤقف اپنایا کہ پی ٹی اے کے اقدامات پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ، 2016ء کے سیکشن 37 کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے عوامی اور پی ٹی اے کے کیس سے متعلق 12 ستمبر 2019ء کے فیصلے میں دی گئی ہدایات کے باوجود اتھارٹی اور وفاقی حکومت 2016ء کے ایکٹ کے سیکشن 37 کے ذیلی سیکشن (2) میں دی گئی متعلقہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی اور سب سیکشن (1) میں دیئے گئے اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا۔
 
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ستمبر 2018ء میں عوامی وطن پارٹی کی درخواست مسترد کر دی تھی اور کہا تھا کہ پی ٹی اے قانون سازی کے بغیر کسی ویب سائٹ کو بلاک نہیں کرسکتا۔ عدالت نے 3 ماہ میں قوانین بنانے اور نوٹیفائی کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حکم بھی دیا تھا کہ پی ٹی اے کو (پیکا کے) سیکشن 37 کے تحت کوئی حکم جاری کرنے یا اقدام اٹھانے کا اختیار نہیں ہے۔ وکیل نے زور دیا کہ آئین کے آرٹیکل 19 اور 19-اے میں اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹک ٹاک ایپ بہت سارے باصلاحیت شہریوں، خاص طور پر پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو آمدن کا ذریعہ فراہم کرتی اور چند لوگوں کی جانب سے پلیٹ فارم کے غلط استعمال پر اس پر پابندی لگانے کا جواز نہیں ہے۔ دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی اے کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کی مدد کے لیے ایک اعلٰی افسر کو نامزد کریں اور وضاحت طلب کی کہ مذکورہ بالا فیصلوں میں اس عدالت کی جانب سے دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر کارروائی کیوں نہیں کی جا سکتی اور ٹک ٹاک ایپ پر پابندی عائد کرنے کا حکم کیوں معطل نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے کیس کی سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 9 اکتوبر کو فحش مواد کو نہ ہٹائے جانے پر ٹک ٹاک کو ملک بھر میں بند کردیا تھا۔ ملک بھر میں ٹک ٹاک کو بند کیے جانے پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا تھا، تاہم زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق تھے کہ ٹک ٹاک پر فحش مواد نہیں ہونا چاہیئے۔ ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہونے کے بعد ملک بھر میں اسے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کے ذریعے ملک بھر میں چلایا جا رہا ہے اور اس عمل کے خلاف بھی لاہور ہائیکورٹ میں ایک شہری نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ میں شہری کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ وی پی این پر بھی ٹک ٹاک کو بند کرنے کا حکم دے۔ چند روز قبل انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ٹیلی کام کے وفاقی وزیر امین الحق نے کہا تھا کہ ٹک ٹاک سے جلد ہی پابندی ختم کر دی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 892364
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش