0
Friday 16 Oct 2020 18:11

شہید ملت کا قتل، پس پردہ محرکات

شہید ملت کا قتل، پس پردہ محرکات
تحریر و تحقیق: سیدہ ایمن نقوی

تاریخ کے اوراق بہت سے ایسے رموز سے بھرے پڑے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی ان حقائق سے پردہ اٹھتا ہے۔ بعض اوقات کسی بھی ملک میں ایسے بہت سے حادثات رخ دیتے ہیں کہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان میں ملک کے داخلی گروہ شامل ہیں لیکن جوں جوں وقت کا پہیہ آگے بڑہتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کسی خارجی طاقت کا ہاتھ تھا۔ مسلم ممالک میں کوئی بھی جنایت ہو تو یہ ممکن نہیں کہ اسکے پیچھے امریکہ کا ہاتھ نہ ہو۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ خان لیاقت علیخان کی شہادت کے پیچھے بھی اسی رزل جنایتکار کا ہاتھ ہے۔ دشمن جان گیا تھا کہ اس کا پالا کسی عام شخص سے نہیں بلکہ ایک ایسی شخصیت سے ہے جو مرنا تو جانتی ہے لیکن باطل کے آگے جھکنا نہیں۔ ایک اور بڑی وجہ جو امریکہ کی نظر میں کانٹے کی طرح چبھ رہی تھی وہ لیاقت علیخان کے ایران سے صمیمانہ روابط تھے۔ آج 16 اکتوبر ہے۔ 69 برس قبل آج ہی کے دن پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔

آج اس واقعے کو ہوئے لگ بھگ سات دہائیاں گزر چکی ہیں مگر "بظاہر" اب تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ پاکستان کی تاریخ کا رُخ بدلنے والا یہ واقعہ کسی بڑی سازش کا شاخسانہ تھا یا کسی انتہا پسند کا انفرادی فعل۔ اِس قتل کے دس روز بعد ہی یعنی 25 اکتوبر 1951ء کو اُس وقت کی حکومت نے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے دیا تھا جو فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں پنجاب کے مالیاتی کمشنر جناب اختر حسین پر مشتمل تھا۔ اس کمیشن کا دائرہ کار لیاقت علی خان کے قتل کے محرکات کا پتا چلانا نہیں بلکہ یہ معلوم کرنا تھا کہ لیاقت علی خان کو کنِ حالات میں قتل کیا گیا، اُس موقع پر حفاظتی اقدامات کیسے تھے، انتظامات کی کمی اور ناکامی کی ذمہ داری کس پر ہے اور کسی ایسی تقریب جہاں صف اول کے قائدین موجود ہوں وہاں پہ سکیورٹی انتطامات کس نوعیت کے ہونے چاہیئیں۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ 17 اگست 1952ء کو شائع کی تھی۔

درحقیقت اس کمیشن کا دائرہ کار محض انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب اور سرحد (موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا) کے پولیس افسران قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس کمیشن کی رپورٹ شائع ہوئی تو لیاقت علی خان کی بیوہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ہی نہیں بلکہ عوام نے بھی اسے مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے دس دن بعد 26 اگست 1952ء کو پاکستان کے انسپکٹر جنرل سپیشل پولیس نوابزادہ اعتزاز الدین کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز پشاور جا رہے تھے، جب طیارہ کھیوڑہ کے مقام پر حادثے کا شکار ہوا۔ صاحبزادہ اعتزاز الدین بھی لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش کر رہے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُن کے ساتھ اس کیس کے بعض اہم کاغذات کی فائلیں بھی تھیں جو اس حادثے کے ساتھ ہی جل کر راکھ ہو گئیں۔ حکومت نے اس کمیشن کی رپورٹ پر بیگم رعنا اور عوامی ردعمل کے پیش نظر ایک اور رپورٹ تیار کروائی جس کے لیے سکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک معروف سراغ رساں سی ڈبلیو یورین کی خدمات حاصل کی گئیں۔

سی ڈبلیو یورین نے اس خدمت کے عوض 10 ہزار برطانوی پاؤنڈ بطور معاوضہ حاصل کئے اور 28 نومبر 1954ء سے 16 جون 1955ء تک قتل کی تفتیش کرتے رہے۔ 25 جون 1955ء کو ان کی رپورٹ اشاعت کے لیے جاری کی گئی۔ اُن کی تفتیش کا حاصل یہ تھا کہ لیاقت علی خان کا قتل کسی سازش کا شاخسانہ نہیں تھا بلکہ ایک قاتل کا ذاتی فعل تھا۔ اسی دوران محکمہ پولیس نے سی آئی ڈی انسپکٹر شیخ ابرار احمد کو لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش پر مامور کیا۔ شیخ ابرار احمد اس قتل کے وقت جلسہ گاہ میں موجود تھے اور انہوں نے لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر پر گولیاں چلانے والے انسپکٹر محمد شاہ کے ہاتھوں سے ریوالور چھینا تھا۔ شیخ ابرار احمد کی تیار کردہ رپورٹ ان کی خود نوشت سوانح ’نقوش زندگی‘ میں شامل ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق لیاقت علی خان کا قتل اگرچہ سید اکبر کا ذاتی فعل تھا تاہم انہوں نے بین السطور بعض اخبارات کو سید اکبر کی ذہنی حالت کو تبدیل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا، جن میں لیاقت علی خان اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے خلاف معاندانہ مواد کی اشاعت معمول کی بات تھی اور اسی زمانے میں ایران کے وزیراعظم رزم آرا کے قتل کی خبروں کو غیر معمولی کوریج دی گئی تھی۔

وینکٹ رامانی نے اپنی کتاب "پاکستان میں امریکہ کا کردار" میں تحریر کیا ہے کہ ٹرومین انتظامیہ کو کوریا کی مسلسل جنگ میں اس کی مداخلت کی بنا پر کانگریس کی روز افزوں نکتہ چینی کا سامنا تھا۔ بہت سے نکتہ چینوں کا کہنا تھا کہ امریکہ نے زیادہ تر بوجھ اٹھا رکھا ہے اور اسے زیادہ تر جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے، جبکہ بہت کم ایشیائی ملکوں نے اس فوجی مہم میں شرکت کی۔ وزیر خارجہ ڈین ایچی سن کا خیال تھا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کی کمانڈ میں اہم کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی نئی کوشش کے لیے یہ مناسب وقت تھا۔ مزید لکھا گیا کہ "ڈین ایچی سن نے پاکستان میں امریکی سفیر ایوراوارن کو پاکستانی حکام سے فوری رابطہ کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے انہیں ہوشیاری سے رہنمائی بھی فراہم کی۔ جس نکتے پر زور دیا جانا تھا وہ خود اپنی سلامتی کے بارے میں پاکستان کے خدشات تھے۔" ایچی سن نے یہ مشورہ دیا کہ وارن لیاقت علی خان کو یہ یاد دلائیں کہ اگر اقوام متحدہ کے ارکان کوریا کی فوجی مہم میں ٹھوس تعاون فراہم کرنے میں ناکام رہے تو اس کے نتیجے میں اجتماعی سلامتی کا نظام ختم بھی ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان اس امر سے آگاہ ہے کہ اقوام متحدہ کے دوسرے ملکوں کو بھی کسی روز جارحیت کا نشانہ بننے پر اقوام متحدہ کے وسائل کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

وارن نے 11 مئی 1951ء کو یہ مسئلہ لیاقت علی خان کے گوش گزار کیا۔ لیاقت علی خان بھی زیرک سیاست دان تھے، انہوں نے اس مسئلے کو الٹنے اور پاکستان کے لیے ممکنہ حد تک بہترین شرائط حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وہ سمجھتے تھے کہ امریکہ کی ضرورت پاکستان کے لیے ایک موقع ہے۔ صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصلے کا وقت آ گیا ہے۔ اگر امریکہ ان سے مشرق وسطٰی میں تعاون یا کوریا میں استعمال کے لیے ایک یا زیادہ ڈویژنوں کی پیشکش کا طلب گار تھا تو پھر وہ پاکستان کے معاملے میں کس قسم کی ذمہ داری قبول کرے گا؟ اگر وہ امریکہ کا ہاتھ پکڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا امریکہ کشمیر کے مسئلے پر ان کی حمایت کرے گا؟ نہرو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کروانے پر تلے ہوئے تھے، نہرو کے طرز عمل کو ناکام بنانے کے لیے امریکہ کیا قدم اٹھائے گا؟ کیا امریکہ پختونستان کا شوشہ ختم کروانے میں پاکستان کی مدد کرے گا؟ امریکہ ان سے ایک ایسے فیصلے کی خواہش کر رہا تھا جو مغرب کے ساتھ ایک ناقابل تلافی رشتے پر دلالت کرتا تھا۔ وہ یہ فیصلہ کرنے پر تیار تھے، کیا امریکہ بھی پاکستان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرنے پر تیار تھا؟ لیاقت علی خان نے وہ قیمت بیان کر دی تھی جو وہ امریکہ سے وصول کرنا چاہتے تھے۔ ایچی سن نے اس کا جو جواب دیا وہ اس زمانے میں برصغیر کے مسائل کے بارے میں امریکی حکومت کے رویئے کی واضح ترین نشاندہی کرتا ہے۔
 
انہوں نے اپنے سفیر وارن کو مطلع کیا کہ اگر لیاقت علی خان فوج فراہم کرنے کی پیشکش کو امریکہ کی طرف سے کشمیر اور پختون مسائل پر مکمل اور غیر مشروط حمایت سے منسلک کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے قابل قبول نہیں۔ اس قسم کا امریکی اقدام انڈیا اور افغانستان کی حکومتوں کو مکمل طور پر برگشتہ کرنے کا موجب بنے گا۔ جہاں تک ایچی سن کا تعلق تھا کوریا کے لیے پاکستانی فوج کی پیشکش کو کوریا کے براہ راست تعلق نہ رکھنے والے دوسرے مسائل پر دوررس سیاسی حمایت سے سودے بازی کی بنا پر قبول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب سے چند برس پہلے امریکہ کے نیشنل آرکائیوز ڈپارٹمنٹ نے اپنی دستاویزات عوام کی رسائی کے لیے کھولیں تو ان میں ایسے خطوط اور ٹیلی گرام بھی موجود نظر آئے جن کے مطالعہ سے لیاقت علی خان کے قتل کی بعض گرہیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ ان میں پہلی دستاویز سات ستمبر 1951ء کو کراچی میں امریکی سفیر ایواروارن کی جانب سے امریکی وزیر خارجہ ایچی سن کے نام بھیجا گیا ایک ٹیلی گرام ہے جس کا نمبر ہے 251 اور اس پر ’کانفیڈینشل‘ کے الفاظ تحریر ہیں۔ اس ٹیلی گرام کے مطابق اس شام پاکستان کے وزیر خزانہ غلام محمد نے امریکی سفیر سے چائے پر ملاقات کی۔

سفیر کے مطابق غلام محمد شدید بیماری کے بعد تیزی سے صحتیاب ہو رہے تھے۔ غلام محمد نے وارن سے درخواست کی کہ وہ حسب ذیل پیغام امریکی وزیر خارجہ تک پہنچا دیں۔ اگلے ہفتے ظفر اللہ خان واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ ازراہ کرم ان سے ملاقات کر لیجئے۔ انہیں توقع ہے کہ آپ ان سے اپنے گھر پر ملاقات کریں گے اور انہیں ہیری مین سے ملاقات کے لیے بھی وقت دلوا دیں گے۔ (یہاں ہیری مین سے مراد غالباً ہیری ایس ٹرومین ہے جو اس وقت امریکہ کے صدر تھے)۔ امریکی سفیر وارن نے اس ٹیلی گرام میں مزید لکھا کہ غلام محمد کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کی تعمیر اور مسلم دنیا کو کمیونزم کے خلاف منظم کرنے کا نصب العین پورا کیے بغیر مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔۔۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ یہ بات جان لیں کہ ظفر اللہ خان، گورمانی اور خود انڈیا کی چھیڑخانی کو جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔ وہ دسمبر میں تین ہفتے کے لیے امریکہ آنا چاہتے ہیں اور اس موقع پر آپ سے ملاقات کا خواہاں ہیں۔ اس پورے بیان میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ غلام محمد اپنے اس پیغام میں امریکی وزیر خارجہ کو جس امر کی یقین دہانی کروا رہے تھے وہ یہ تھا کہ وہ اور ان کے دو رفقا، انڈیا کی چھیڑخانی کو جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک نو آزاد ملک کے وزیر خزانہ کو ایک عالمی طاقت کے وزیر خارجہ کو یہ یقین دہانی کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا سبب وینکٹ رامانی کی کتاب کے اوپر درج کیے اقتباس سے بخوبی ہو جاتا ہے۔ اسی زمانے میں 27 جولائی 1951ء کو لیاقت علی خان نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو ’مکا‘ دکھایا تھا۔ اس ٹیلی گرام سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ غلام محمد اپنی علالت کے باعث کاروبار حکومت چلانے کے لیے مکمل طور پر ’فٹ‘ نہیں تھے۔ اندرونی اطلاعات یہ بھی تھیں کہ انہیں اور گورمانی کو ان کے عہدوں پر سے ہٹایا جانے والا تھا۔ لیاقت علی خان سردار عبدالرب نشتر کو نائب وزیراعظم اور نواب محمد اسماعیل کو پنجاب کا گورنر بنانا چاہتے تھے۔ امریکی سفیر سے غلام محمد کی اس ملاقات سے بارہ دن پہلے 25 اگست 1951ء کو لیاقت علی خان نے امریکی وزیر خارجہ کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں پاکستان کے لیے دفاعی سازو سامان کی درخواست کی گئی تھی۔ خط کے مشمولات کی اہمیت کے پیش نظر اسے ڈاک یا کسی اور ذریعہ سے بھیجنے کی بجائے سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ کے ہاتھ بھیجا جانا زیادہ محفوظ اور مناسب خیال کیا گیا۔ مگر اتنا اہم خط، جو ایک ملک کے وزیراعظم نے ایک عالمی طاقت کے وزیر خارجہ کو تحریر کیا تھا، دو ماہ کی غیر معمولی تاخیر کے بعد اس وزیراعظم کے قتل کے دو دن بعد 18 اکتوبر 1951ء کو امریکی وزیر خارجہ کو پہنچایا گیا۔

لیاقت علی خان کے قتل کے آٹھ دن بعد ایک رپورٹ نما مضمون بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ’ندیم‘ میں شائع ہوا۔ اس مضمون کی سرخی تھی "کیا لیاقت علی خان کا قتل امریکہ کی گہری سازش کا نتیجہ ہے۔" 30 اکتوبر 1951ء کو دلی میں امریکہ کے سفارت خانے نے اس مضمون کی تلخیص کا ترجمہ ایک خفیہ ٹیلی گرام کے ذریعہ امریکی وزارت خارجہ کو روانہ کیا۔ مضمون کی تلخیص کچھ یوں کی گئی تھی، کہ "پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق برطانیہ نے پاکستان پر ایران کے سلسلے میں تعاون کرنے کا دباؤ ڈالا۔ امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر اثر و رسوخ استعمال کر کے اس پر دباؤ ڈالے کہ ایران تیل کے کنویں امریکہ کے حوالے کر دے۔ لیاقت علی خان نے امریکہ کی درخواست مسترد کر دی۔" روزنامہ کیھان کی رپورٹ کے مطابق "امریکی صدر نے لیاقت علیخان سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے ان سے تقاضا کیا کہ قبل ازیں کہ دیگر یورپی ممالک ایران سے تیل کے کنویں کرائے پر لینے کی بات کریں، آپ چونکہ ایران سے بہت قریب ہیں، آپ ایران سے امریکہ کیلئے تیل کے کنویں کرائے پر لے لیں، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ایرانی تیل پر صرف ہمارا کنٹرول ہو۔

لیاقت علیخان نے کہا کہ میں "تمہارے چند ٹکوں کے عوض اپنے برادر ملک سے خیانت نہیں کر سکتا"، جسکے جواب میں امریکی صدر نے لیاقت علی خان کو دھمکی دی، لیاقت علیخان کو کمزور شخصیت کے مالک نہیں تھے کہ امریکہ کے سامنے جھک جاتے، آپ نے اسی وقت حکم دیا کہ 24 گھنٹے کے اند اندر امریکی جنگی طیارے پاک سرزمیں کو خالی کر دیں۔  امریکہ نے کشمیر پر خفیہ معاہدہ ختم کرنے کی بھی دھمکی دی۔ لیاقت علیخان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے تعاون کے بغیر آدھا کشمیر لے لیا باقی کشمیر بھی پاکستان حاصل کر لے گا، اُدھر لیاقت علیخان نے امریکہ سے ہوائی اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اِدھر لیاقت کا مطالبہ واشنگٹن پر بم بن کر گرا۔ امریکہ کے حکمران پاکستان کے ہوائی اڈوں سے روس کو فتح کرنے کے جو خواب دیکھ رہے تھے وہ چکنا چور ہو گئے۔ امریکہ نے لیاقت علی خان کو قتل کرانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو تاکہ بین الاقوامی پیچیدگیاں دور کی جا سکیں۔ امریکہ پاکستان میں کوئی باغی تلاش نہ کر سکا جیسا کہ وہ ایران، عراق اور ایران میں کامیاب رہا تھا۔

امریکی حکمرانوں نے یہ ذمہ داری کابل کے امریکی سفارت خانے کو سونپی۔ سفارت خانے نے پشتون لیڈروں سے رابطہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ اگر لیاقت علی کو قتل کروا دیا جائے تو امریکہ 1952ء تک پختونستان قائم کرا دے گا۔ پشتون لیڈروں نے سید اکبر کو قتل کی ترغیب دی اور اسے بھی موقع پر ہی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ سازش کا پتا نہ چل سکے۔ امریکی حکومت کے لیاقت علی خان کے ساتھ اختلافات ’گراہم‘ کی رپورٹ سے ظاہر ہوئے جو اس نے سپریم کورٹ میں پیش کی۔ گراہم نے اچانک پاکستان کی مخالفت شروع کر دی تھی حالانکہ پہلے کبھی اس نے اشارہ نہیں دیا تھا، لیاقت علی خان کے جسم سے ملنے والے خالی کارتوس امریکی ساختہ تھے جن کو اعلٰی امریکی افسر استعمال کرتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں۔ ندیم اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ "جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ان کے شوہر کے قتل کی خبر سنائی اور ان سے تعزیت کی، تو اس سے ساڑھے تین منٹ پہلے، امریکی سفیر بیگم صاحبہ کو یہ خبر سنا کر تعزیت کر چکے تھے۔ یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ جنایتکار امریکہ ہے جس نے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں ایسے جرم کیے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع و مآخذ
1۔ روزنامہ کیھان
2۔ بی بی سی نیوز
3۔ انڈیپینڈنٹ نیوز
4۔ ڈیلی پاکستان
خبر کا کوڈ : 892394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش