QR CodeQR Code

حکومت نے نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کیلئے برطانیہ سے ایکبار پھر درخواست کر دی

22 Oct 2020 10:38

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 15 ستمبر کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جبکہ ان کی جانب سے دائر تین درخواستوں کی سماعت کی تھی، جن میں عدالت میں حاضری اور ہتھیار ڈالنے سے استثنٰی کی درخواستیں بھی شامل تھیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیئے جانے کے بعد سابق وزیراعظم برطانیہ روانہ ہو گئے تھے۔


اسلام ٹائمز۔ وفاقی حکومت نے برطانیہ کی حکومت سے تیسری بار درخواست کی ہے کہ وہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو پاکستانی جیل میں سزا پوری کرنے کے لیے واپس بھیجیں اور اس مرتبہ یہ خط ذاتی طور پر اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمشنر کو دیا گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ خط نواز شریف کے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس (ایم پی سی) میں کی گئی تقریر کے تین ہفتوں بعد برطانوی سفارت کار کے حوالے کیا گیا جہاں مذکورہ تقریر میں انہوں نے سیاست میں اس کے مبینہ کردار پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ خط کے ذریعے حکومت پاکستان نے برطانوی حکام سے نواز شریف کے وزٹ ویزا کو منسوخ کرنے پر غور کرنے کو کہا ہے جس نے انہیں طبی بنیادوں پر نومبر سے لندن میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

 
اس خط میں 1974ء کے برطانیہ کے اپنے امیگریشن قوانین کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو اگر چار سال سے زیادہ کی قید کی سزا سنائی جائے تو اسے برطانیہ سے ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ جب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ شہزاد اکبر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ حکومت نے برطانیہ کے حکام کو نواز شریف کو ملک بدر کرنے کے لیے تین درخواستیں کی ہیں، آخری درخواست 5 اکتوبر کو کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلا خط اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے نواز شریف کی ضمانت منسوخ کرنے کے بعد گزشتہ ماہ بھیجا گیا تھا۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ اپنے تازہ خط میں حکومت نے سابق وزیراعظم کی "مخصوص ملک بدری" کے ممکنہ طریقوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ گیند اب برطانوی حکومت کے کورٹ میں ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے 15 ستمبر کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جبکہ ان کی جانب سے دائر تین درخواستوں کی سماعت کی تھی، جن میں عدالت میں حاضری اور ہتھیار ڈالنے سے استثنٰی کی درخواستیں بھی شامل تھیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیئے جانے کے بعد سابق وزیراعظم برطانیہ روانہ ہو گئے تھے، انہوں نے عدالت میں ایک معاہدہ پیش کیا تھا کہ وہ چار ہفتوں کے اندر یا جیسے ہی ڈاکٹروں نے صحت مند اور سفر کے قابل قرار دیا تو وہ واپس آ جائیں گے۔ نواز شریف نے ناصرف آل پارٹی کانفرنس میں بلکہ حال ہی میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے گوجرانوالہ جلسے میں بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ گوجرانوالہ میں مسلم لیگ (ن) کے جلسے کے ایک دن بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹائیگر فورس کے کنونشن سے خطاب کیا اور اعلان کیا کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ اور بھی سخت رویہ اپنائیں گے اور انہوں نے نواز شریف کو واپس لانے اور سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے لیے ہر ممکن کوششوں کا عزم ظاہر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب میں پوری کوشش کروں گا کہ آپ کو واپس لاؤں اور آپ کو وی آئی پی کے بجائے ایک عام جیل میں رکھا جائے۔ اس سے قبل اے پی پی نیوز ایجنسی کے مطابق برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے شہزاد اکبر کی جانب سے برطانوی سیکرٹری داخلہ پریتی پٹیل کو بھیجے گئے خط کے جزوی مواد کا انکشاف کیا تھا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ پریتی پٹیل نواز شریف کو ملک بدر کرنے کی پابند ہیں تاکہ وہ بدعنوانی کے الزام میں دی گئی جیل کی سزا بھگت سکیں۔ شہزاد اکبر نے اس خط میں لکھا کہ سابق وزیراعظم ریاست سے لوٹ مار کرنے کے ذمہ دار تھے، مجھے یقین ہے کہ آپ بدعنوانی کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہماری کوششوں کے حامی ہوں گے۔ اخبار نے مزید کہا کہ پریتی پٹیل کو لکھے گئے خط میں برطانوی سیکرٹری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کو ملک بدر کرنے کے لیے اپنے "وسیع اختیارات" استعمال کریں۔
 


خبر کا کوڈ: 893400

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/893400/حکومت-نے-نواز-شریف-کو-ڈی-پورٹ-کرنے-کیلئے-برطانیہ-سے-ایکبار-پھر-درخواست-کر-دی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org