0
Sunday 1 Nov 2020 18:45

ہفتہ وحدت باعث رحمت

ہفتہ وحدت باعث رحمت
تحریر: شبیر احمد شگری

تمام عالم اسلام کو ماہ مبارک ربیع الاول کی مبارک ساعتوں کی مبارکباد پیش خدمت ہے۔ ماہ مبارک ربیع الاول کی آمد کیساتھ ہی تمام مسلمانوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ایک نیا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور مسلمانوں کے درمیاں مبارک بادی اور ذکر پاک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہر جگہ مسلمان اپنی زبانوں کو درود پاک سے معطر کرتے نظر آتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کو رنگ برنگی جھنڈیوں، درود و سلام والے بینرز اور برقی قمقموں سے آراستہ کیا جاتا ہے۔ کیوں نہ ہو، اس ماہ مبارک میں ختمی مرتبت، سرکار دو جہاں، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی۔ جو کہ ہماری امت کیلئے خدا کی بہترین عطاء اور بخشش کا ذریعہ ہیں۔ ہفتہ وحدت، 12 ربیع‌ الاول سے 17 ربیع‌ الاول کے درمیانی فاصلے کو کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں تاریخیں مسلمانوں کے یہاں پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ ولادت باسعادت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اہلسنت برادران 12 ربیع الاول جبکہ اہل تشیع 17 ربیع الاول کو حضورؐ کا میلاد مناتے ہیں۔

بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینیؒ نے 27 نومبر 1981ء کو  عالم اسلام کے لئے ایک تاریخی اور وحدت سے بھرپور قدم اٹھایا اور 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول دونوں تاریخوں کو ملا کر پورے ہفتے کو ہفتہ وحدت کا نام دے دیا، تاکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی برکت اور  طفیل سے اہل تشیّع اور اہلسنت برادران آپس کے اختلافات حتٰی کی حضور اکرم کی تاریخ ولادت کے اختلاف کو بھی بھلا کر وحدت اور اتحاد کا مظاہرہ کرسکیں۔ وحدت اسلامی کے اس عملی اقدام نے مسلمانوں کے درمیان پیار و محبت، بھائی چارے اور وحدت کی نئی روح پھونک دی۔ مسلمان نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک پر ثابت قدم رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ یوں رحمت اللعالمین کی ذات مبارکہ جو ایثار و قربانی، صبر و رضا اور بھائی چارے کا پیکر ہیں، نئے جوش و جذبے کیساتھ  وحدت کا مثالی مرکز بن گئی ہے۔

اسی طرح ہفتہ وحدت کے بعد اسلامی دنیا میں اتحاد اور ہمبستگی کے لئے زمینہ ہموار کرنے، علماء اور دانشوروں کے مابین ہم فکری ایجاد کرنے کیلئے ہر سال ایران میں عظیم الشان بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ساری دنیا سے مسلمانوں کے تمام مکتبہ فکر کے علماء اور دانشور شرکت کرتے ہیں، فرقہ اور مسالک سے بے نیاز ہو کر اپنے دلوں میں محبت و بھائی چارے کا جذبہ لے کر واپس لوٹتے ہیں۔ آج دنیا جوں جوں عالم اسلام سے دشمنی کیلئے انتہائی اقدامات کر رہی ہے۔ الٹا اسلام دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے مسلمانوں میں روز بروز دشمنوں کی سازشوں کے حوالے سے شعور پیدا ہو رہا ہے۔ بہرحال بارہ سے سترہ ربیع الاول تک جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے ایام ہیں، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیئے۔ یہ مستحکم حصار اور مضبوط قلعہ اگر تعمیر کر لیا جائے تو کوئی بھی طاقت اسلامی ملکوں اور قوموں کی حدود میں قدم رکھنے کی جرأت نہیں کرسکے گی۔

آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ دنیا کے اہلسنت حضرات آکر شیعہ ہو جائیں، یا دنیا کے شیعہ اپنے عقیدے سے دست بردار ہو جائیں۔ البتہ کوئی سنی یا کوئی دوسرا شخص تحقیق اور مطالعہ کرے اور پھر اس کے نتیجے میں وہ جو کوئی بھی عقیدہ اپنائے، وہ اپنے عقیدے اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرسکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے اور اللہ تعالٰی کے بیچ کا معاملہ ہے۔ ہفتۂ وحدت میں اور اتحاد کے پیغام کے طور پر ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے قریب آکر اتحاد قائم کرنا چاہیئے، ایک دوسرے سے دشمنی نہیں برتنا چاہیئے۔ اس کیلئے محور کتاب خدا، سنت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شریعت اسلامیہ کو قرار دیا جائے۔ اس بات میں کوئی برائی نہیں۔ یہ تو ایسی بات ہے جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان قبول کرے گا۔

قرآن پاک کہتا ہے کہ "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لا تفرقوا" یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہر مسلمان کا فرض ہے، لیکن قرآن نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا کہ ہر مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے بلکہ حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمان اجتماعی شکل میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں۔ "جمیعا" یعنی سب کے سب ایک ساتھ مضبوطی سے پکڑیں۔ چنانچہ یہ اجتماعیت اور یہ معیت دوسرا اہم فرض ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ہے کہ یہ عمل دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ اجتماعی طور پر انجام دیا جانا ہے۔ اس اعتصام کی صحیح شناخت حاصل کرکے اس عمل کو انجام دینا چاہیئے۔ اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے، اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراؤ اور تنازعے سے گریز۔

اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کیخلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔ مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانیوالے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ اس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے میں آیا۔ جب گذشتہ دنوں ملک دشمن عناصر نے ملک عزیز پاکستان میں فرقہ واریت جیسی آگ بھڑکا کر ایک ہی شجر پیوستہ سے وابستہ دین اسلام کے مختلف فرقوں میں فساد پھیلانے اور دین اسلام اور ملک عزیز پاکستان کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی۔ لیکن ہر مسلک کے دور اندیش، معاملہ فہم اور دشمنوں کی سازش سمجھنے والے علماء اور شخصیات نے چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، اتحاد و یگانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو بتا دیا کہ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

ہم صدیوں سے محلوں تک میں ساتھ رہتے آئے ہیں، اس لئے ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں۔ ہم محرم کا جلوس بھی نکالیں تو کوئی سینہ زنی کر رہا ہوتا ہے، کوئی سبیل لگائے ہوتا ہے اور ہمارے عقیدے کے مطابق حسینیت دین اسلام کی جان ہے، جس نے خون دے کر نانا کے دین کو بچایا۔ اسے چھوڑ کر یزید پلید کی تعریف کرنیوالا دین خدا کا پیروکار نہیں ہوسکتا بلکہ شیطان کا پیروکار کہلائے گا۔ اور وہ اسلام کا خیرخواہ کیسے ہوسکتا ہے۔ سوائے اس کے کہ اسلام کیساتھ ساتھ اس طاقتور اسلامی ملک عزیز پاکستان کے حالات کو خراب کرنے اور اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے۔ کربلا کے بعد دو ہی فرقے رہ گئے ہیں، حسینیت اور یزیدیت اور پھر اس سال کے چہلم امام حسین علیہ السلام کے بعد تو ان دشمنان اسلام کے ہوش اُڑ چکے ہیں کہ جب حسین ؑکے غلاموں نے۔

"کُلُّ یَوْمٍ عاشُورَا و کُلُّ اَرْضٍ کَرْبَلا" کے مصداق ہر سال کی طرح کربلا میں منعقد ہونیوالے چہلم حسینی اور چہلم واک میں اس سال شرکت نہ کر سکنے پر زمین کے ہر خطے کو کربلا بنا دیا اور روز اربعین ہر جگہ چہلم واک کرکے جلوس اور مجالس برپا کرکے کربلا سے حسینیت کے ذکر کو پوری دنیا تک پھیلا کر یہ ثابت کیا کہ اگر روضہ حسین ؑ پر اس سال نہ پہنچے تو کیا ہوا، سرزمین کا ہر خطہ کربلا ہے اور اس سال کے ان جلوسوں میں برادران اہلسنت کے علماء اور شخصیات نے وحدت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور دشمنوں کو بتا دیا کہ جس طرح امام حسین ؑ نے اپنے نانا کے دین کو بچانے کی خاطر اپنا گھر بار لٹا کر ہر قسم کی قربانیاں دی ہیں۔ ہم بھی مقصد حسینیت کیلئے ایک ہیں۔ شیعہ ہوں یا سنی ہم سب بھائی بھائی ہیں اور حسین علیہ السلام کسی ایک فرقے کے امام یا پیشوا نہیں ہیں بلکہ تمام مسلمانوں کے آقا و جنت کے سردار ہیں۔

کیونکہ وہ اللہ کے نبی کے نواسے ہیں، جن کا کلمہ پڑھے بغیر مسلمان نہیں ہوسکتے تو ان کی دشمنی کرنیوالا اور انھیں اذیت دینے والا کیسے مسلمان ہوسکتا ہے۔ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ علمائے اہلسنت اور نامور شخصیات نے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے ارض پاکستان کی سالمیت اور دین اسلام کی خدمت کیلئے مختلف سیمینارز اور کانفرنسز برپا کرکے اور اپنی تقاریر، بیانات، انٹرویوز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اہم کردار ادا کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کو بھٹکنے، انھیں متحد کرنے اور دشمن کی سازش کا شکار ہونے سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کیا، جس کی وجہ سے آج دشمن کو منہ کی کھانی پڑی اور دشمن کا خواب پورا ہونے کی بجائے امت میں مزید اتحاد و اتفاق پیدا ہوا اور یہ سب کچھ میرے ملک عزیز پاکستان  کے محب وطن اور اسلام کے حقیقی پیروکار علماء اور شخصیات کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ جس کیلئے ہم انھیں سلام پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اسی طرح دشمن کی سازشوں کو ناکام بناتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 895362
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش