0
Thursday 12 Nov 2020 17:08

فوج اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیج دے تو بات ہوسکتی ہے، مریم نواز کی بی بی سی سے گفتگو

فوج اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو گھر بھیج دے تو بات ہوسکتی ہے، مریم نواز کی بی بی سی سے گفتگو
اسلام ٹائمز۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ پاک فوج سے بات کرنے کیلئے تیار ہیں، فوج سے بات ہوسکتی ہے لیکن عوام کے سامنے، چھپ کر نہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے پلیٹ فارم سے پاک فوج سے بات چیت پر غور کیا جا سکتا ہے، شرط یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو گھر بھیجا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے قریبی ساتھیوں کے ذریعے رابطے کیے گئے ہیں، میرے ساتھ براہِ راست کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ پی ایم ایل این کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ فوج میرا ادارہ ہے، ضرور بات ہوگی لیکن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے۔

مریم نواز نے حکومت سے مذاکرات کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ تو عوام کے ساتھ ہوگا۔ انسپکٹر جنرل پولیس سندھ کے معاملے پر جواب نہیں ملے بلکہ مزید سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق عوامی ردعمل کا جواب دینا منتخب حکومت کا کام ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی یا مائنس عمران خان؟ جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہوگا۔ نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے۔ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد انہیں معافی دینے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سے الحاق کا نہیں، احتساب کا وقت ہے، یہ خود چیزیں غائب کرتے ہیں اور مہنگائی کرکے مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔
 
اس بات پر کہ بلاول بھٹو کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ نواز شریف کی جانب سے انتخابات میں فوج کی مداخلت کے ثبوت سامنے لانے کے منتظر ہیں، مریم نواز کا کہنا تھا کہ میاں صاحب نے بات بعد میں کی ہے اور ثبوت خود عوام کے سامنے آئے ہیں، شوکت عزیز صدیقی، جج ارشد ملک اور ڈان لیکس کی حقیقت آپ کے سامنے ہے، جب آپ ایک چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں کرتے تو وہ ڈان لیکس جیسی ایک جھوٹ پر مبنی چیز کھڑی کر دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک اپنا مؤقف ہے، پاکستان مسلم لیگ نون کا اپنا موقف ہے، جو میاں صاحب نے واضح کر دیا ہے۔
 
کراچی میں اپنے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ پر عسکری حکام کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ اور اس کی تحقیقات کے بعد فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کی جانب سے جاری پریس ریلیز پر ردِعمل دیتے ہوئے مریم نے کہا کہ اس پریس ریلیز سے عوام کو جواب نہیں ملے، مزید سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔ آپ قوم کو یہ کہہ رہے ہیں کہ کچھ جذباتی افسران نے عوامی دباؤ کا ردِعمل دیتے ہوئے یہ کیا۔ کون سا عوامی ردِعمل تھا، وہ جعلی لوگ جنھوں نے مقدمہ درج کروایا اور پھر مدعی ہی بھاگ گیا، ان تین چار لوگوں کے دباؤ کو آپ عوامی دباؤ کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عوامی ردِعمل کا جواب دینا آئین کے مطابق اداروں کا کام نہیں منتخب حکومت کا کام ہے۔ اداروں کا کام اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں نبھانا ہے، نہ کہ جذبات دکھانا۔
 
انہوں نے کہا کہ اداروں کا کام جذبات کے ساتھ نہیں ہے اور ان کا کام اپنی آئینی اور پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانا ہے، اس میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں اور اگر واقعی کسی نے یہ جذبات میں آکر کیا ہے تو یہ تو ادارے کے لیے اور پاکستان کے لیے بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ ایسا نہیں ہوا، چند جونیئر افسران کو قربانی کا بکرہ بنا دیا گیا، یہ غلط بات ہے۔ ان ہاؤس تبدیلی یا مائنس عمران خان فارمولے کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مائنس عمران خان دیکھا جائے گا، میں اس بارے میں مزید کچھ نہیں کہوں گی، لیکن جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔ اس حکومت کے ساتھ بات کرنا گناہ ہے۔ اس ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے عمران خان اور حکومت کو گھر جانا ہوگا اور نئے شفاف انتخابات کروائے جائیں اور عوام کی نمائندہ حکومت آئے۔

پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مفاہمت کا راستہ کھلا رکھنے پر بات کرتے ہوئے انھوں کہا کہ میری نظر میں عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی بڑا مسئلہ اس لیے نہیں ہیں، کیونکہ میں انھیں سیاسی لوگ نہیں سمجھتی۔ میرا اور میری جماعت کا مقابلہ اس سوچ کے ساتھ ہے، جس کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں، جس کا پاکستان سے خاتمہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ ان (تحریک انصاف) کے ساتھ کسی بھی قسم کا اتحاد انھیں معافی دینے کے مترادف ہوگا، جو میری نظر میں جائز بات نہیں ہے۔ میری نظر میں اب ان کے احتساب کا وقت ہے، ان کے ساتھ الحاق کا وقت نہیں ہے۔ یہ ان کے ساتھ انتخابی اتحاد کا وقت نہیں۔ اب جبکہ وہ کمزور ہوگئے ہیں۔ تاہم باقی جماعتوں کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے۔ اس سوال پر کہ کیا گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لیے قانون سازی میں مسلم لیگ حکومت کا ساتھ دے گی۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ جس طرح انھوں نے نواز شریف کے دیگر منصوبوں پر اپنی تختی چپکا دی ہے، وہ کوشش انھوں نے یہاں بھی کی ہے، لیکن لوگ جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ منصوبہ کس کا تھا۔ مجھے امید ہے کہ جب گلگت بلتستان کے عوام مسلم لیگ نون اور شیر پر اعتماد کریں گے تو یہ صوبہ بھی مسلم نون بنائے گی بلکہ اس کے ساتھ جو آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے، یعنی این ایف سی ایوارڈ کے تحت اس کے شیئر دینا، وہ بھی نون لیگ دیکھے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ یہ پارلیمان میں نہیں لائیں گے، یہ کام بھی نون لیگ کرے گی، کیونکہ یہ صرف ان کا انتخابی وعدہ ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ وہ اپنی تقریروں میں اپنی، نواز شریف کی بات زیادہ کرتی ہیں مگر عوامی مسائل کی کم۔ اس پر مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں جہاں بھی جاتی ہوں، مجھے نواز شریف کے حامی دکھائی دیتے ہیں اور اگر میں انھیں وہ نہیں سُناؤں گی، جو وہ سننے آئیں ہیں، جو پاکستان سننا چاہتا ہے، تو میں اور کیا بات کروں۔
 
انہوں نے کہا کہ میں عمران خان کا نام بھی نہیں لینا چاہتی، لیکن وہ ہر اس چیز کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اس ملک میں نہیں ہونی چاہیئے۔ تو جب ہم دیکھتے ہیں آٹا، چینی، گیس، بجلی مہنگی ہونے کی بات کرتی ہوں تو اور کس کا نام لوں، اگر عمران خان کا نام نہ لوں اور سب سے بڑا عوامی مسئلہ یہ ہے کہ ان کا ووٹ چوری کیا گیا ہے، یہ خود ہی چیزیں مارکیٹ سے غائب کرتے ہیں اور پھر مہنگائی کرکے وہ واپس مارکیٹ میں لے آتے ہیں، یہ نوٹس لیتے ہیں اور چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ معاشی صورتحال ان نالائقوں کے ہاتھوں بہتر نہیں ہوسکتی، یہ حال ہوتا ہے، جب آپ لوگوں کے ووٹ چوری کریں۔
خبر کا کوڈ : 897411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش