0
Tuesday 17 Nov 2020 09:20

سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ اور دیگر کتب کا اجراء

سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ اور دیگر کتب کا اجراء
اسلام ٹائمز۔ سرسید اکیڈمی اور دارا شکوہ مرکز تفاہم بین المذاہب و ڈائیلاگ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو اہم ادارے ہیں جو کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ عوام تک براہ راست ربط پر بھی توجہ مرکوز کریں تاکہ سماج کو مجموعی طور سے فائدہ ہو۔ کتابوں کو دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی ترجمہ کرکے شائع کیا جائے تاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔ ان خیالات کا اظہار اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے سرسید اکیڈمی کے زیر اہتمام ’مقالات سرسید‘ سمیت دیگر کتابوں اور مونوگراف کی آن لائن رسم اجراء تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وائس چانسلر کے ہاتھوں ’مقالات سرسید‘ (مولانا محمد اسماعیل پانی پتی) جلد اوّل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیلنڈر 1932، تفہیم سرسید (الطاف احمد اعظمی)، شیخ محمد عبداللہ (پاپا میاں) از ڈاکٹر محمد فرقان، جسٹس سرشاہ محمد سلیمان از ڈاکٹر اسد فیصل فاروقی اور مولوی چراغ علی از ڈاکٹر رضا عباس کا اجراء عمل میں آیا۔

پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ اے ایم یو کے صدی سال میں سرسید اور علی گڑھ تحریک سے متعلق قدیم کتابوں کی اشاعت باعث مسرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اشاعتوں کا معیار بلند ہونا چاہیئے، ساتھ ہی کتابوں کا ہندوستانی اور انگریزی سمیت دیگر غیرملکی زبانوں میں ترجمہ بھی ہونا چاہیئے تاکہ سرسید اور علی گڑھ تحریک کا پیغام دور دراز تک پہنچے۔ ملٹی ڈسپلنری یونیورسٹی ہونے کے باعث اے ایم یو میں یہ کام آسان ہے۔ پروفیسر طارق منصور نے کہا ہے کہ سرسید اکیڈمی میں ریسرچ کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ محمد عبداللہ پاپا میاں کو ہندوستان میں خواتین کی جدید تعلیم کا بابائے آدم کہا جاسکتا ہے۔ جسٹس سر شاہ محمد سلیمان اور مولوی چراغ علی، علی گڑھ تحریک کا اہم باب ہیں۔ ان کتابوں کی اشاعت کے لئے اکیڈمی کے ذمہ داران مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس سے قبل ’مقالات سرسید‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر شافع قدوائی (صدر شعبۂ ترسیل عامہ اے ایم یو) نے کہا کہ مولانا اسماعیل پانی پتی کی مرتب کردہ مقالات سرسید 1955ء میں شائع ہوئی تھی جس میں نقل نویسوں کی غلطیوں کے باعث کئی کمیاں رہ گئی تھیں۔ سرسید اکیڈمی نے یونیورسٹی کے صدی سال میں اس کتاب کے اغلاط کو درست کرکے اسے شائع کیا ہے۔ پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ اس اشاعت کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں کئی مضامین جو سرسید کے نام سے شائع نہیں ہوئے تھے انہیں سرسید کے مضامین میں شامل کردیا گیا۔ مشہور انگریزی انشائیہ نویس جوزف ایڈیسن اور رچرڈ اسٹیل کے انشائیوں کے تراجم جس کی صراحت خود سرسید نے کی ہے، انہیں مولانا اسماعیل پانی پتی نے ’مقالات سرسید‘ میں شامل کرلیا تھا۔ اس خلط مبحث کو سرسید اکیڈمی نے اپنی تازہ اشاعت میں دور کردیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 898238
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش