0
Friday 27 Nov 2020 22:15

بابا جان اور افتخار حسین کربلائی سمیت ہنزہ کے تمام سیاسی اسیران رہا ہوگئے

بابا جان اور افتخار حسین کربلائی سمیت ہنزہ کے تمام سیاسی اسیران رہا ہوگئے
اسلام ٹائمز۔ حکومت گلگت بلتستان نے بابا جان اور افتخار کربلائی سمیت ہنزہ کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بابا جان اور افتخار کربلائی کو غذر جیل سے رہا کر دیا گیا، جس کے بعد سانحہ ہنزہ کے بعد مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے اور سزا پانے والے تقریباً تمام سیاسی اسیران رہا ہوگئے ہیں۔ منگل کے روز حکومت نے پانچ قیدیوں کو رہا کر دیا تھا جبکہ گذشتہ ماہ دو نوجوانوں کو رہا کیا گیا تھا۔ منگل کے روز رہائی پانے والے سیاسی اسیران میں عرفان کریم، عامر علی، احمد خان، سرفراز احمد اور شیر خان شامل تھے۔ چند روز قبل 21 نومبر کو چار اسیران کو رہا کیا گیا تھا، جن میں عرفان علی، علیم اللہ، موسیٰ بیگ اور شکور اللہ بیگ شامل تھے جبکہ دو نوجوانوں سلمان کریم اور راشد منہاس کو گذشتہ ماہ 22 اکتوبر کو رہا کیا گیا تھا۔ عوامی ورکر پارٹی کے سرگرم رہنما بابا جان اور قراقرم نیشنل موومنٹ کے رہنما افتخار حسین کربلائی سمیت دیگر اسیروں کو مختلف مقدمات میں 90 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

سانحہ ہنزہ اور سیاسی قیدی
چار جنوری 2010ء کو ہنزہ تحصیل کے گاؤں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں مٹی کا تودہ گرنے کے باعث دریائے ہنزہ میں پانی کا بہاؤ رک گیا، جس کے نتیجے میں ایک جھیل معرضِ وجود میں آگئی۔ پہاڑی کا بڑا حصہ گرنے سے دریائے ہنزہ کا بہائو 5 ماہ کیلئے رک گیا۔ واقعہ میں بیس کے قریب افراد جاں بحق جبکہ کئی گائوں زیر آب آنے سے 6 ہزار کے قریب افراد بے گھر ہوئے۔ عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماء بابا جان اور قراقرم نیشنل موومنٹ کے رہنما افتخار حسین کربلائی اور ان کے ساتھیوں نے متاثرہ افراد کی بحالی اور مدد کیلئے مہم چلائی تھی، اسی دوران اس وقت کے وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے ہنزہ کا دورہ کیا اور دورے کے موقع پر متاثرین نے احتجاجی مظاہرہ کیا، جو پرتشدد شکل اختیار کر گیا۔

احتجاج کے دوران پولیس کی فائرنگ سے دو مقامی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس واقعہ کیخلاف شدید احتجاج ہوا، بابا جان اور افتخار کربلائی اس احتجاج کی قیادت کر رہے تھے۔ بعد میں مقامی انتظامیہ نے بابا جان اور افتخار حسین کربلائی سمیت کئی افراد کیخلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لیے۔ 2011ء میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ دو سال بعد چیف کورٹ نے ضمانت پر رہا کر دیا۔ 2014ء میں ضمانت منسوخی کے بعد پھر گرفتار کیا گیا۔ 2019ء میں مقامی عدالت نے تین مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر انہیں 90 سال قید کی سزا سنائی۔ یہ سزا ریاستی تاریخ میں کسی بھی فرد کو سنائی جانے والی سب سے طویل سزا ہے۔

جیل سے انتخابی معرکہ
جب 15 جون 2015ء کو گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات ہوئے تو بابا جان عوامی ورکرز پارٹی کے امیدوار کے طور پر جیل سے انتخاب لڑے۔ اس نشست پر مسلم لیگ نون کے میر غضنفر علی 8062 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ بابا جان 4597 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ ان کی حمایت میں جو ریلیاں نکلیں، ان میں ہزاروں نوجوانوں نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی تیسرے اور تحریک انصاف چوتھے نمبر پر رہی۔ بابا جان کے کاغذات نامزدگی اس لئے مان لیے گئے کہ وہ ایک انڈر ٹرائل قیدی تھے۔ بعد میں میر غضنفر کو جب گورنر گلگت بلتستان لگایا گیا تو یہ نشست خالی ہو گئی اور ضمنی الیکشن میں بابا جان نے ایک بار پھر کاغذات نامزدگی جمع کرائے، تاہم ان کے کاغذات کو مسترد کیا گیا اور انہیں الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا۔ 2020ء کے الیکشن میں ایک بار پھر بابا جان نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، اس بار بھی مسترد کیا گیا اور انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملی۔

سیاسی اسیروں کی رہائی کیلئے تاریخی دھرنا
 6 اکتوبر 2020ء سے ہنزہ علی آباد میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلئے تاریخی دھرنا دیا گیا۔ اسیران رہائی کمیٹی ہنزہ کی جانب سے احتجاجی دھرنا دیا گیا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ یہ دھرنا کئی روز تک جاری رہا اور ملکی و غیر ملکی میڈیا میں معاملہ خوب اجاگر ہوا۔ اس احتجاج کے بعد حکومت پر عالمی سطح پر دبائو میں اضافہ ہوا اور بالآخر حکومت نے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ گذشتہ ماہ اکتوبر میں کئی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا، نومبر کے اوائل میں مزید سیاسی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ جمعہ کی شب بابا جان اور افتخار حسین کربلائی کو گاہکوچ جیل سے رہا کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 900345
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش