0
Saturday 1 Aug 2009 11:59

پرویز مشرف کی ایمرجنسی غیرآئینی قرار،اسلام آباد ہائی کورٹ ختم،پی سی او ججوں کو کام سے روک دیا گیا،سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

پرویز مشرف کی ایمرجنسی غیرآئینی قرار،اسلام آباد ہائی کورٹ ختم،پی سی او ججوں کو کام سے روک دیا گیا،سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007 ء کو لگائی جانیوالی ایمرجنسی کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام قرار اور پی سی او ججوں کو کام سے روک دیا ہے۔ تین نومبر کے بعد اعلیٰ عدالتوں میں تعینات ہونیوالے پی سی او ججز اور سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی برطرفی کے حوالے سے آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے 14 رکنی لارجر بینچ نے ٹکا اقبال کیس کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور کہا کہ عبدالحمید ڈوگر کسی صورت چیف جسٹس نہیں تھے، ان کے انتظامی اور مالیاتی فیصلے اور صدر کا حلف متاثر نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اسلام آباد ہائی کورٹ ختم ہو گئی اور اس کے تمام ججز فارغ ہو گئے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی نافذ کر کے آئین کے آرٹیکل 279 کی خلاف ورزی کی گئی، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں کو ہٹانے کا حکم اور فنانس بل کے ذریعے ججوں کی تعداد بڑھانا غیر قانونی تھا۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے 14 رکنی بینچ نے جمعہ کی دوپہر کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو دن ساڑھے تین بجے سنایا جانا تھا تاہم یہ فیصلہ پونے پانچ گھنٹے کی تاخیر سے سنایا گیا۔ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے تین نومبر 2007ء سے دسمبر 2008ء تک کے اقدامات اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی جانب سے تین نومبر 2007ء سے لے کر 22 مارچ 2009ء کو ان کی ریٹائرمنٹ تک کی گئی تمام تقرریاں غیر آئینی قرار دی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تین نومبر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے صدر اور وزیر اعظم سے ایسے کوئی اقدامات نہ کرنے کو کہا تھا جس سے عدالت کی آزادی متاثر ہو اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھانے کو کہا گیا تھا، اس لئے وہ جج صاحبان جو تین نومبر سے قبل بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج تھے اور انہوں نے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ان کے کیس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیئے گئے ہیں جبکہ تین نومبر کے بعد تعینات ہونیوالے تمام ججوں کی تعیناتی کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے سپریم اور ہائی کورٹس کے 100 سے زائد جج متاثر ہوئے ہیں۔ فیصلے سے سپریم کورٹ کے 12 جج متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 10 کی تعیناتی کالعدم قرار دی گئی ہے جبکہ دو ججوں جسٹس فقیر محمد کھوکھر اور جسٹس جاوید بٹر کا کیس سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ کے 43،سندھ ہائی کورٹ کے 26،بلوچستان ہائی کورٹ کے 6،پشاور ہائی کورٹ کے 9 اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے 9 جج اس فیصلے کے بعد فارغ ہو گئے ہیں جبکہ ان ججوں کے اسٹاف کو سر پلس پول میں بھیج دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت ججوں کی تعداد ججز ایکٹ کے تحت 17 ہی رہے گی۔ جمعہ کو مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ پرویز مشرف نے تین نومبر کے بعد کتنے آرڈیننس جاری کئے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 37 آرڈیننس جاری ہوئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت واضح موقف کے ساتھ سامنے آئے اور تحریری طور پر آگاہ کرے کہ وہ کتنے آرڈیننس رکھنا چاہتی ہے کیونکہ ان میں سے کچھ آرڈیننس ملکی سالمیت سے متعلق ہیں۔ جسٹس خلیل رمدے نے بھی ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پارلیمنٹ نے ان آرڈیننسز کا جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کے نگران نہیں ہیں اور ہمیں اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ان آرڈیننسز کے حوالے سے ہمیں بھی تو معلوم ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کو کیا ذمہ داری دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پرویز مشرف کو اپنا موقف دینے کا پورا موقع دیا گیا، آزاد عدلیہ جمہوریت کو مضبوط کرتی ہے، جمہوری عمل جاری رہے گا۔ قبل ازیں، چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں مسٹر جسٹس جاوید اقبال،مسٹر جسٹس سردار محمد رضا،مسٹر جسٹس خلیل الرحمن رمدے،مسٹر جسٹس میاں شاکر اللہ جان،مسٹر جسٹس تصدق جیلانی،مسٹر جسٹس ناصر الملک،مسٹر جسٹس راجہ فیاض احمد،مسٹر جسٹس چوہدری اعجاز احمد،مسٹر جسٹس غلام ربانی،مسٹر جسٹس سرمد جلال عثمانی،مسٹر جسٹس سائر علی،مسٹر جسٹس ایم اے شاہد صدیقی اور مسٹر جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل 14رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین اور آئینی سوچ کی بالادستی قائم کرنے کا وقت آ گیا ہے اللہ کا شکر ہے کہ پارلیمنٹ نے آمرانہ ترامیم کو ہاتھ تک نہیں لگایا توقع ہے کہ 27رکنی کمیٹی بھی ان کا جائزہ نہیں لے گی۔ صدارتی انتخابات وزیراعظمپارلیمنٹ،صوبائی حکومتیں،صوبائی اسمبلیاں،عاصمہ جیلانی کیس کے مطابق آئین کے تحت ہی قائم ہوئی ہیں ہم افراتفری پھیلانا نہیں چاہتے اٹارنی جنرل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت نے 3نومبر2007ء کے آمرانہ اقدامات کی کبھی حمایت نہیں کی تین نومبر کے اقدامات کے حوالے سے جو فیصلہ آئے گا اس کا اطلاق مستقبل سے ہونا چاہیے تا کہ ڈھانچہ متاثر نہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو کونسا ڈھانچہ خطرے میں نظر آ تا ہے آپ تین نومبر کے اقدامات کو ہی غیر آئینی سمجھتے ہیں تو اس بنیاد پر تعمیر ہونے والی عمارت کا تحفظ کیوں چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ اہم ہو گا یہ نہ صرف قانونی نکات بلکہ تاریخ رقم کرے گا میں امید کرتا ہوں کہ اس سے آمریت کا خاتمہ ہو گا اور جمہوریت مضبوط ہو گی جو کہ ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ عدالت کا تاریخی فیصلہ لوگوں کی سوچ کو تبدیل کر دے گا۔ ملک میں نازک صورت حال ہے، سرحدوں پر دباؤ ہے ان حالات میں یہ فیصلہ لوگوں کی امیدوں کو زندہ کر دیگا۔ اگر مولوی تمیز الدین کیس میں گورنر جنرل کے اقدامات کو تحفظ نہ دیا جاتا تو آج ملک میں جمہوریت مضبوط ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ 17ویں ترمیم کی منظوری سے ایل ایف او کو آئین کا حصہ تسلیم کر لیا گیا۔ عدالت جنرل پرویز مشرف کے 12اکتوبر 1999ء کواقدامات کو درست قرار دینے سے متعلق سپریم کورٹ کے ظفر علی شاہ کیس کا بھی دوبارہ جائزہ لے اس فیصلے میں 12اکتوبر 1999ء کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیا گیا۔ بھارت میں آج تک فوج نے مداخلت نہیں کی۔ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پھانسی کے فیصلے کو عوام نے کبھی درست تسلیم نہیں کیا۔3نومبر 2007ء سے لیکر 15دسمبر 2007ء تک صدر نے کل 37آرڈیننس جاری کئے ہیں جبکہ ٹکا اقبال کیس اور اس کے نظر ثانی فیصلے کی مسلم لیگ(ق) کے علاوہ باقی سب جماعتوں نے مذمت کی۔ اٹارنی جنرل کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے دو ججوں کے حوالے سے رشید اے رضوی نے دلائل دیئے جبکہ تین نومبر کے اقدامات کے حوالے سے ایڈووکیٹ حامد خان نے جوابی دلائل دیئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین صدر کو کچھ اختیارات دیتا ہے آرمی چیف کو نہیں۔ آرڈیننس کا اجراء،تقرریاں،تنخواہیں،پنشن کے معاملات میں تفریق کیسے کریں۔ اس دوران جاری ہونے والے آرڈیننس کا کیا کیا جائے ۔ جسٹس سردار رضا نے کہا کہ جس اتھارٹی کو ایمر جنسی نافذ کرنے کا اختیار نہیں، کیا وہ اس کو ختم کر سکتا ہے بالادست ہی ماتحت کو اختیارات منتقل کر سکتا ہے۔ ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا کہ حکومت کو قانون سازی کیلئے ٹائم فریم دینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ آرڈیننس بل کی صورت میں پارلیمنٹ کے سامنے رکھے جا سکتے ہیں اور پھر انکو ایکٹ آف پارلیمنٹ بنایا جا سکتا ہے کچھ چیزوں میں مداخلت کی ضرورت ہے لیکن ہم معاملات میں ابہام نہیں چھوڑ سکتے۔ دوسری جانب سماعت کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے کہا ہے این آر او ختم ہو چکا ہے اب اس کی کوئی افادیت نہیں ہے، غیر جمہوری قوتوں نے آئین کو مسخ کیا، آئین میں کئی گئی تمام پیوند کاریاں ختم کی جائیں گی۔ دوسری جانب سابق صدر پرویز مشرف نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے پر کوئی بھی رد عمل دینے ے انکار کر دیا ہے۔ ادھر سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت کے بعد اٹارنی جنرل کے آفس کی طرف سے سابق صدر پرویز مشرف کی طرف سے 12 جولائی 2007ء سے 14 دسمبر 2007ء کے دوران جاری کردہ 37 آرڈیننس کی فہرست عدالت میں پیش کردی گئی۔ فہرست کے مطابق ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ سے قبل تقریبا پانچ ماہ کے دوران 29 آرڈیننس جاری ئے گئے جبکہ 8آرڈیننس تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ سے لیکر14 دسمبر تک جاری کئے گئے۔

خبر کا کوڈ : 9004
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش