0
Thursday 11 Aug 2011 18:19
شام کے خلاف ترکی کے اقدامات کے پشت پردہ حقائق

شام کے اندرونی معاملات میں ترکی کی مداخلت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ترکی کے اعلی اہلکار کے انکشافات

شام کے اندرونی معاملات میں ترکی کی مداخلت، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ترکی کے اعلی اہلکار کے انکشافات
اسلام ٹائمز [استنبول]- پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ترکی کے ایک اعلی سطحی اہلکار نے نام نہ لینے کی شرط پر اسلام ٹائمز کو بتایا کہ ایک ماہ قبل امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اور سی آئی اے ڈائریکٹر پیٹریاس کے ترکی دورے کے دوران ترک اور امریکی حکام شام کی حکومت کو سرنگون کرنے پر متفق ہو گئے اور ان میں طے پایا کہ شام میں حکومت مخالفین کی حمایت کی جائے اور انہیں اسلحہ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ ماہ مبارک رمضان سے پہلے شام میں حکومت مخالف گروہ "حماہ" شہر کو اپنے قبضے میں لے لیں اور مصر کے شہر مصراتہ کی مانند اسے حکومت مخالف تحریک کے مرکز میں تبدیل کر دیں لیکن یہ منصوبہ شام حکومت کی بروقت کاروائی سے ناکامی کا شکار ہو گیا۔
یہ مسئلہ ترک حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بھی بنا کیونکہ وہ یہ خیال کرتی ہے کہ اگر شام ملک میں موجود سیاسی بحران پر قابو پا لیتا ہے تو ترکی کی مشکلات کا آغاز ہو جائے گا۔ ترکی نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی پالیسی اپنا رکھی تھی جو شام حکومت کی کامیابی کی صورت میں شکوک و شبھات کا شکار ہو سکتی ہے۔ لہذا ترکی کوشش کر رہا ہے کہ شام میں حکومت مخالف دھڑوں کو اسلحہ کی فراہمی کے ذریعے انہیں تقویت کرے اور امریکہ بھی اسکے اس اقدام کی حمایت کر رہا ہے۔
ترک حکام نے رائے عامہ کو دھوکہ دینے کیلئے حتی ایران کے خلاف بھی منفی پروپیگنڈہ بھی شروع کر رکھا ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ ایران سے شام جانے والے اسلحے کی بھاری مقدار کو ضبط کیا ہے جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ پروپیگنڈہ محض اپنے ان خائنانہ اقدامات کو چھپانے کی غرض سے کیا جا رہا ہے جنکے ذریعے ترکی شام میں حکومت مخالف گروہوں کو بڑی مقدار میں اسلحہ سپلائی کر رہا ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ ترکی کی اکثر سیاسی جماعتیں، شخصیات اور اعلی فوجی عہدیدار شام سے متعلق حکومتی پالیسیوں کے مخالف ہیں اور نہیں چاہتے ترکی شام کے خلاف امریکی سازشوں میں شریک ہو۔ چند دن پہلے ترک آرمی کے کئی جرنیلوں کی جانب سے مستعفی ہو جانے کی اصل وجہ بھی ان حکومتی پالیسیوں پر اعتراض کرنا تھا جو حتی ترکی کو نہ چاہتی ہوئی جنگ میں دھکیلنے کا باعث بن سکتی ہیں۔
نام نہ لینے کی شرط پر ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی کے اس اعلی سطحی کارکن نے مزید بتایا کہ امریکہ اور نیٹو نے لیبیا کی مانند ترکی پر فوجی حملے کا منصوبہ بھی بنا رکھا ہے جس میں ترکی مرکزی کردار کا حامل ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیٹو کونسل میں روس کے نمائندے دمیتری رگوزین نے کچھ دن قبل کہا تھا کہ نیٹو شام کے خلاف فوجی کاروائی کے ذریعے صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماسکو نے لیبیا میں فوجی آپریشن سے بہت کچھ سیکھا ہے لہذا شام کے خلاف کسی قسم کی قرارداد کی مخالفت کرے گا۔
شام سے متعلق ترک حکومت کی پالیسیوں نے اسے روس اور ایران جیسے طاقتور ہمسایوں کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے لہذا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ترکی کی جانب سے ان پالیسیوں کو جاری رکھنے کی صورت میں اسکے اپنے پڑوسی ممالک [شام، آرمینیا، عراق، ایران] کے ساتھ تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے اور ترکی کو 10 سال پیچھے لے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 90541
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش