0
Wednesday 30 Dec 2020 22:08
شہید جنرل سلیمانی و ابومہدی المہندس کی پہلی برسی

شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ جنگ کے اگلے مورچوں پر موجود رہتے تھے، سید حسن نصراللہ

میں ہمیشہ ان پر جان قربان کرنے کو تیار رہتا تھا
شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ جنگ کے اگلے مورچوں پر موجود رہتے تھے، سید حسن نصراللہ
اسلام ٹائمز۔ لبنانی مزاحمتی فورس حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ایرانی سپاہ قدس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، عراقی حشد الشعبی کے سابق ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور رفقاء کی پہلی برسی کے حوالے سے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں انہیں مکتب امام خمینیؒ کا تربیت یافتہ قرار دیا اور کہا کہ آج سے تقریبا 20 سال قبل میری جنرل قاسم سلیمانی کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی تھی جبکہ وہ ہمیشہ دوستوں سے ملاقات کے لئے خود جایا کرتے اور اپنے مجاہد دوستوں کی بات بڑی دلجمعی کے ساتھ سنتے اور اسی طرح وہ خود میدان جنگ میں حاضر رہتے تھے۔ سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت میں موجود انہی خصوصیات کے سبب انہیں مینیجمنٹ و سپہ سالاری کے میدان میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی خوبیوں میں سے ایک ان کا "حسن سلوک" تھا جس کے مطابق وہ ہمیشہ مجاہدین کی حمایت میں کمربستہ رہتے اور ہمیشہ ہی ان سے محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ سید مقاومت نے کہا کہ ان کا یہ اعلی سلوک ذمہ دار اہلکاروں پر انتہائی گہری اخلاقی و معنوی تاثیر کا موجب بنتا تھا جبکہ انہیں اپنے اس اچھے کردار کے سبب ہر قسم کی آراء اور نکتہ ہائے نظر سننے کا موقع بھی مل جاتا تھا کیونکہ وہ صرف اپنے دفتر میں بٹھ کر ہی وہاں آنے والوں کی آراء پر اکتفاء نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حسن اخلاق شہید قاسم سلیمانی کو بہتر نکتۂ نظر اپنانے اور تمام پہلوؤں کو نظر میں رکھنے اور اپنی ذمہ داریوں کے بارے انتہائی گہرے طرز فکر کے حامل ہونے میں مدد فراہم کرتا تھا۔

سربراہ حزب اللہ لبنان نے "حقیقت" دستاویزی مرکز کو دیئے گئے انٹرویو میں، جو بعد ازاں پریس ٹی وی (Press TV) پر بھی نشر کیا گیا، میں کہا ہے کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی صرف موصول ہونے والی رپورٹس پر ہی اکتفاء نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ میدانِ جنگ میں حاضر رہ کر موجود صورتحال کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے اور مختلف طبقے کے افراد سے براہ راست گفتگو کیا کرتے۔ سید حسن نصراللہ نے کہا کہ یہ حاج قاسم سلیمانی کی یہ ایک خصوصیت ایسی ہے جس کا فوجی سربراہان کے درمیان رواج نہیں البتہ ایران میں تمام بڑے کمانڈرز، دفاع مقدس کے زمانے میں عام سپاہیوں اور مجاہدین کے ساتھ براہ راست ملاقات کو جایا کرتے تھے تاہم یہ بات صرف ایران میں ہی صادق آتی ہے اور اس کے باہر کہیں موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ایک اور خصوصیت ان کا انتھک ہونا تھا جبکہ ہمارے برخلاف وہ کبھی تھکتے اور نہ ہی کوشش سے ہاتھ اٹھاتے تھے جبکہ سختیوں و مشکلات کے مقابلے میں بھی وہ انتہائی صبر و استقامت سے کام لیتے تھے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ میں کبھی مبالغے سے کام نہیں لیتا تاہم میں نے آج تک ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جو حاج قاسم سلیمانی کے مانند سختیوں کا مقابلہ کرتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ بے مثال خضوع و فروتنی سے بھی مالامال تھے حتی وہ عام افراد کے ساتھ بھی انتہائی عاجزی سے پیش آتے تھے جبکہ یہ تمام خصوصیات "شہید قاسم سلیمانی کے مکتب" کا ایک حصہ ہیں۔

شہید قاسم سلیمانی و سید حسن نصراللہ خوشگوار موڈ میں

سید حسن نصراللہ نے سال 2006ء میں اسرائیل کی جانب سے لبنان پر مسلط کردہ 33 روزہ جنگ میں شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اہم کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی مشکلات برداشت کرنے کی بہت زیادہ طاقت رکھتے مثلا جون 2006ء میں ہونے والی 33 روزہ جنگ کے دوران وہ تہران سے دمشق آ جاتے تھے اور پھر ہم سے رابطہ کرتے اور کہتے کہ جنوبی ضاحیہ آنا چاہتے ہیں؛ میں نے تب شہید قاسم سلیمان کو کہا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ یہ کام ممکن نہیں تھا کیونکہ سارے پل اور سڑکیں بند کر دی گئی تھیں، اسرائیلی لڑاکا طیارے ہر قسم کے اہداف کو نشانہ بنا لیتے تھے اور تب ماحول مکمل طور پر جنگی ہو چکا تھا۔ سید مقاومت نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کوئی ضاحیہ یا بیروت میں داخل نہیں ہو سکتا تھا تاہم شہید جنرل قاسم سلیمانی نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کوئی سواری نہیں بھیج سکتے تو میں اکیلا ہی آ جاؤں گا، وہ انتہائی اصرار کر رہے تھے اور بالآخر لبنان آ ہی گئے۔ 

ملاحظہ کیجئے اس ویڈیو میں:
 
خبر کا کوڈ : 907096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش