0
Saturday 2 Jan 2021 23:07

تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت دی جائے، علامہ تصور جوادی

تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کھولنے کی اجازت دی جائے، علامہ تصور جوادی
اسلام ٹائمز۔ کورونا کے بہانے سے سکول بند ہیں، بچوں کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے، پہلے چھ ماہ سکول بند رہے، بچوں کو پڑھایا کچھ نہیں اور سکول والے بچوں کی فیسیں لیتے رہے، دو ماہ سکول کھولے گئے اور پھر سے لاک ڈاؤن کا بہانہ بنا کر دوبارہ سکول بند کر دئیے گئے بچوں کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزاد کشمیر نے وحدت ہاوس مظفر آباد سے جاری ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کرونا یہاں سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے آرہا ہے۔؟ اور باقی جگہ جہاں نماز جنازہ، مساجد، امام بارگاہوں میں اجتماعات نیز جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے چند دن قبل پٹہکہ میں بڑا جلسہ کیا ہے جس میں سینکڑوں افراد شریک تھے وہاں کوئی ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا تھا، اسی طرح بازار کھلے ہیں، بازاروں میں کافی بھیڑ ہے، اسی طرح ٹرانسپورٹ کے اڈوں کا بھی یہی حال ہے الغرض ہر جگہ پر لوگ چاہے وہ دفاتر ہیں یا عدالتیں ہیں آزادی سے آجا رہے ہیں یہاں صرف سکول بند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ارباب اختیار سے اس امر پر بھرپور تقاضا کرتے ہیں خصوصاً وزیراعظم آزاد کشمیر، چیف سیکرٹری آزاد کشمیر، کمشنر صاحبان، ڈپٹی کمشنر صاحبان اور محکمہ تعلیم کے حکام بالا سے بھرپور تقاضا کرتے ہیں کہ وہ سکولوں کو فوری طور پر کھولیں، قوم کے نونہالوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچائیں۔ سکولوں میں اساتذہ بہتر ایس او پیز کا خیال رکھ سکتے ہیں استاد مہذب ہوتا ہے معمار ہوتا ہے۔ بچوں کی بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔ سکولوں نے ایسی ایس او پیز بنا لی تھیں کہ ایک دن سکول کے آدھے بچے آتے تھے اور دوسرے دن باقی آدھے بچے آتے تھے۔ ایسا بھی امکان موجود تھا کہ وہاں پر سکول میں سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھا جا سکے۔ علامہ تصور جوادی نے مزید کہا کہ کسی بھی سکول میں بچوں، اساتذہ یا وزٹر کو ماسک کے بغیر انٹری کی اجازت نہیں تھی یہ ایس او پیز اب بھی بحال کی جا سکتی ہیں اور ایس او پیز کے مطابق سکول کھولے جا سکتے ہیں۔ سکول انتظامیہ کلاسوں کو شفٹوں میں تقسیم کر سکتی ہے، جہاں کلاس روم بڑے ہیں وہاں تو یہ مشکل نہیں ہے لیکن جہاں کلاس روک چھوٹے ہیں وہاں پر آدھے بچے ایک دن اور آدھے بچے دوسرے دن آ سکتے ہیں۔ خدارا کوئی ایسا سبب کیا جائے کہ قوم کے نونہالوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچایا جا سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے والدین کی جیب پر ایک بھاری بوجھ ہے وہ مسلسل فیسیں ادا کرتے آرہے ہیں، اب تعلیمی سال مکمل ہو گیا۔ بچوں کو پڑھائی نہیں کروائی گئی لیکن بچوں کی فیسیں والدین مسلسل ادا کرتے آ رہے ہیں۔ بعض اداروں نے اب آن لائن کلاسز کا اجراء کیا لیکن انٹرنیٹ کی سہولت بھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے دستیاب نہیں ہوتی۔ بعض علاقوں میں تو  سرے سے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہی نہیں۔ جہاں ہے وہاں پر بجلی کے ساتھ مشروط ہے۔ بجلی ہوگی تو انٹرنیٹ چلتا ہے، اگر بجلی نہیں ہے تو انٹرنیٹ بھی نہیں ہے۔ لہذا اس پر محکمہ برقیات کو بھی خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ وہ بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنائیں نیز سیلولر کمپنیز بجلی بند ہونے کی صورت میں بھی اپنے ٹاورز سے سروسز کی فراہمی جاری رکھیں۔ تاکہ جہاں کہیں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے وہاں بچے آن لائن کلاسز اٹینڈ کر سکیں۔ علامہ جوادی نے مزید کہا کہ ان سب چیزوں کا بہترین حل یہ ہے کہ سکول، کالجز اور یونیورسٹیز  کھولی جائیں اور بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 907640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش