0
Sunday 3 Jan 2021 20:29
شہید قاسم سلیمانی کی برسی، شیعہ علماء کونسل کے زیر اہتمام کانفرنس

ڈی آئی خان، حاج قاسم سلیمانی عالم اسلام کے نمائندہ و نگہبان تھے، مقررین

یاسر الحبیب کی بنائی گئی متنازعہ فلم پہ پاکستان میں پابندی عائد کیجائے، علامہ رمضان توقیر
ڈی آئی خان، حاج قاسم سلیمانی عالم اسلام کے نمائندہ و نگہبان تھے، مقررین
اسلام ٹائمز۔ دنیا بھر کی طرح ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پہ خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں شہید قاسم سلیمانی کی برسی کا مرکزی پروگرام شیعہ علماء کونسل کے زیراہتمام گول میز کانفرنس کی صورت میں نیشنل کلب میں ہوا۔ جس کے روح رواں شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب علامہ محمد رمضان تھے۔ کانفرنس میں تنظیم اہلسنت کے رہنما قاری محمد خلیل سراج، جماعت اسلامی کے ضلعی صدر زاہدمحب اللہ ایڈووکیٹ، پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی ضلعی صدر سید سجاد حسین شیرازی، راجہ شوکت ایڈووکیٹ، معروف رائٹر و تجزیہ نگارابوالمعظم ترابی، ڈیرہ پریس کلب کے صدر محمد فضل الرحمان، ڈی آئی خان ڈسٹرکٹ بارکے صدر سردار قیضار خان ایڈووکیٹ، علامہ امداد حسین صادقی، حاجی زبیر بلوچ، سید ارشاد حسین شاہ، چیف ایڈیٹر چوہدری اصغرعلی، مجلس وحدت مسلمین کے ضلعی جنرل سیکرٹری سید غضنفر عباس اور سید تحسین علمدار سمیت میڈیا اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مقررین نے خطاب میں شہید قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا اور انہیں عالم اسلام کا نجات دھندہ اورسپاہی قرار دیا جبکہ امریکہ کو دنیائے امن بالخصوص عالم اسلام کا دشمن قراردیتے ہوئے اس مذموم عزائم و مقاصد کے سامنے بند باندھنے کی ضرورت پہ زوردیا۔ 

گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیعہ علماء کونسل کے مرکزی نائب علامہ محمد رمضان توقیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید سرباز حاج قاسم سلیمانی کسی خاص مکتب مسلک کے نہیں بلکہ عالم اسلام کے مفادات کے نگہبان تھے۔ انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت اغیار کی سازشیں ہیں، شیعہ سنی کی تقسیم امریکہ و اسرائیل کا مشترکہ ایجنڈا ہے اور عالم اسلام کو اس تقسیم کے ذریعے وہ اپنے عزائم حاصل کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت حال ہی میں بننے والی ایک فلم بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ہی لباس میں بیٹھ کر سیدہ فاطمہ زہرا سسلام اللہ علیہا کی حیات کے نام پہ ایک متنازعہ فلم بنائی گئی ہے کہ جس میں ایسے امور شامل کئے گئے ہیں جو توہین اور دل آزاری کے ذمرے میں آتے ہیں۔ یہ فلم ایک سازش ہے، جس کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا اور مسلمانوں کو تقسیم کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم نہ ہی اہل تشیع کی ترجمانی کرتی ہے اور نہ اہل سنت کی بلکہ اس کے بنانے والے دونوں کے دشمن ہیں۔ ہم ایسے پروگراموں اور اجتماعات کے ذریعے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اہل تشیع کااس فلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس فلم پہ پاکستان میں پابندی عائد کی جائے، کیونکہ یہ انتشار کا باعث بنے گی اور ہم سب کو ملکر اس سازش کو ناکام بنانا ہے۔ 

علامہ رمضان توقیرنے مزید کہا کہ شہید قاسم سلیمانی اور ان کے رفقاء شیعہ و سنی کی تقسیم سے ماورا تھے۔ میری ان سے وابستگی کی وجہ محض یہ نہیں کہ وہ میرے ہم مسلک تھے، بلکہ ان کی خدمات ان سے وابستگی کی وجہ ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کا دفاع اور تحفظ کیا۔ ان کی خدمات اسرائیل کے خلاف اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے تھیں۔ دہشتگردانہ اور انتہا پسندانہ زہنیت شہید قاسم سلیمانی پہ مسلکی چھاپ کے ذریعے انہیں دیکھتی رہی۔ ایک ایسا گروہ جو کہ جس نے اپنی دہشتگردی اور بربریت کے ذریعے پورے عالم اسلام کو عدم استحکام سے دوچار کیا اور شیعہ و سنی کا بلاشرکت غیرے دشمن تھا۔ وہ دہشتگرد گروہ شام و عراق سمیت سعودی عرب پہ حملے و قبضے کا خواب دیکھتا تھا۔ اس داعش کے خلاف شہید قاسم سلیمانی وارد ہوئے اور اسے ختم کرکے رکھ دیا۔ ان کے انسانیت سوز مظالم کا یہ عالم تھا کہ وہ بچوں کو ایک پنجرے میں قید کرے انہیں آگ لگا دیتے تھے۔ پھر ایک چٹائی پہ بیٹھنے والے مرد قلندر آیت اللہ سستانی نے اس کے خلاف فتوی دیا جس کی تعمیل میں اہل تشیع و اہلسنت نوجوان اس داعش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگر آج داعش کو وہیں پہ نہ روکا جاتا تو کوئی بھی اسلامی ملک اس سے محفوظ نہ رہتا

علامہ رمضان توقیر کا مزید کہنا تھا کہ مکتب تشیع محمد و آل محمد (ع) کے مزارات سے عقیدت رکھتے ہیں، ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان پہ کوئی بھی آنچ برداشت نہیں کرتے۔ ہم حاج قاسم سلیمانی کو اس لیے بھی اپنا ہیرو اور سالار سمجھتے ہیں کیونکہ فتنہ داعش نے نواسی رسول سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے مزار کو نعوذ بااللہ شہید کرنے کا اعلان کیا تھا، ان ناپاک عزائم کو قاسم سلیمانی نے خاک میں ملادیا۔ یہاں تک آل رسول (ع) کے مزارات کو محفوظ بنایا۔ آج عراق و شام میں مزارات مقدسہ محفوظ ہیں۔ اربعین حسینی کے موقع پہ کروڑوں افراد نجف تا کربلا بلاخوف و خطر مشی انجام دیتے ہیں۔ یہ قاسم سلیمانی کی محنت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شہید عالم اسلام کے سچے سپاہی تھے۔ ایک جنرل ہونے کے باووجود سپاہی کی یونیفارم میں عام سپاہیوں کے ساتھ ہی رہتے تھے۔ میرا سامرا میں انہیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ان کے ساتھ کوئی پروٹوکول نہیں تھا۔ ہم جہاں ان محافل کے ذریعے قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں وہیں پہ امریکہ کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کرتے ہیں کہ امریکہ کون ہوتا ہے کہ ایک محترم اسلامی ملک میں دوسرے محترم ملک کے سرکاری مہمان کو یوں نشانہ بنائے۔ حاج قاسم سلیمانی عراق کے سرکاری مہمان تھے۔ امریکہ اور اسرائیل سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے حق کو کمزور کرلیں گے یا آزادی فلسطین بیت المقدس کی آزادی کا نعرہ بلند کرنے والے اپنے مشن سے ہٹ جائیں گے تو یہ ان کی نادانی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ایران میں ہی ایرانی سائنسدان فخری ذادہ کو قاتلانہ حملے میں شہید کیا گیا۔ ہم ان امریکی جارحانہ حملوں کی شدید مذإت کرتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل اس طرح عالم اسلام کے زرخیز ذہنوں کو قتل کرکے عالم اسلام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کیلئے وہ ہمیں فرقوں اور قوموں کی تقسیم میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ذمہ دار ملک ہے۔ اس کے خلاف بھی امریکہ اور اسرائیل سرگرم ہیں۔ ہمیں امریکی ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے وحدت کو فروغ دینا ہوگا۔ ہم نے ایک پلیٹ فارم سے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ فیس بک پہ شہید قاسم سلیمانی کے نام کی پوسٹ بھی اپ لوڈ کی جائے تو یوزر کو کچھ دنوں کیلئے بند کر دیا جاتا ہے۔ ان حربوں سے نہ ہی شہید حاج سرباز قاسم سلیمانی کی نہ ہی خدمات کو بھلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی مسلمانوں کے دلوں سے ان کی محبت کو نکالا جاسکتا ہے۔ ہم سب نے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے اور ان عالمی سازشوں و ناانصافیوں بالخصوص امریکی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرنی ہے۔ انشااللہ ہم تمام اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں گے۔ کانفرنس سے دیگر مقررین نے خطاب کیا اور شہید حاج قاسم سلیمانی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 
خبر کا کوڈ : 907832
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش