0
Tuesday 12 Jan 2021 12:44

امریکہ کرونا سے بچاو کیلئے پاکستان کی حکمت عملی اپناتا تو 20 کھرب کے نقصان سے بچ جاتا، اسد عمر

امریکہ کرونا سے بچاو کیلئے پاکستان کی حکمت عملی اپناتا تو 20 کھرب کے نقصان سے بچ جاتا، اسد عمر
اسلام ٹائمز۔ وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے نیتجے میں لگائے گئے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں 2 کروڑ سے زائد افارد بے روزگار ہو گئے تھے۔ اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے کہا کہ جس وقت کورونا آیا اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ تر کاروباری سرگرمیوں پر بندشیں لگ گئیں اس کا اثر یہ پڑا کہ 2 کروڑ سے زائد لوگوں کا روزگار چھن گیا۔ انہوں نے کہا کہ 27 مارچ کو این سی او سی بنی تھی، 5 اپریل کو پورا آرگنائزیشن کا اسٹرکچر ہم نے بنا لیا تھا جس میں اہداف پر مبنی لاک ڈاؤن کی حکمت عملی بنائی گئی، ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور قرنطینہ کا نظام 10 اپریل کو شروع ہوگیا تھا اور 24 اپریل مکمل ٹی ٹی کیو آپریشن پاکستان میں شروع کردیا گیا تھا جس کی مدد سے 12مئی کو ٹیکنالوجی کی مدد سے لاک ڈاؤن کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں 'وی' شکل کی بحالی ہوئی اور تقریباً تمام لوگ اکتوبر تک روزگار تک واپس آ چکے تھے اور نومبر دسمبر میں تعمیرات کی سرگرمیوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، بڑی صنعتوں کی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ اگر اس کا موازنہ آپ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت سے کریں تو کروڑوں لوگ بیروزگار ہو گئے اور دنیا کے طاقتور اور امیر ترین ملکوں میں ہم نے دیکھا کہ کروڑوں اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، یہی وجہ ہے کہ باراک اوباما کے چیف معاشی آفیسر نے کہا کہ اگر امریکا پاکستان کی طرح کورونا کی وبا سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوتا تو امریکا 10 کھرب کے نقصان سے بچ سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بے روزگار ہونے والے 2 کروڑ لوگوں میں سے 29فیصد دیہاڑی دار افراد تھے جن ی نوکری اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ اس دن وہ کام پر آتے ہیں تو ان کو پیسہ ملتا ہے، اس کے علاوہ جو خود کام کرتے ہیں مثلاً ٹھیلا لگاتے ہیں، چھوٹا کھوکھا ہے اور جن کا شمار غریب لوگوں میں ہوتا ہے تو ایسے لوگوں کی تعداد بھی 30 فیصد ہے جو اس دوران روزگار سے محروم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ دو تہائی سے زیادہ تو وہ لوگ بنے جو دیہاڑی دار لوگ ہیں، اس دن اگر ان کا کاروبار نہ ہو تو ان کو کچھ مل نہیں سکتا اور یہی وجہ تھی کہ وزیر اعظم بابر بار اس بات کو دہراتے تھے کہ ہم اس بات کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ مکمل طور پر اس بات کو نظرانداز کر کے سب کچھ بند کردیں۔

اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ بے روزگار ہونے والوں میں سے ایک چوتھائی کا تعلق صنعت سے ہو گا، 20 فیصد تعمیرات کی صنعت سے منسلک تھے اور اگر ان دونوں کو جوڑ دیا جائے تو 46 فیصد بنتا ہے، یعنی ایک کروڑ افراد ان دو شعبوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ یہی وجہ تھی کہ جب ہم فیصلے کررہے تھے تو ہم نے سب سے پہلے صنعتوں اور تعمیرات کے شعبے کو کھولا تھا اور سب سے زیادہ جہاں مشکل نظر آرہی تھی، ہم نے ان شعبوں کو کھولا۔
وزیر منصوبہ بندی نے ہر شعبے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ تعمیرات کے شعبے میں روزانہ کی بنیاد پر کمانے والے 80 فیصد مزدوروں کا کاروبار بند ہو گیا تھا، اگر یہ تعمیرات کا شعبہ کولنے کا فیصلہ نہ کیا جاتا تو کیا ہوتا کیونکہ اس شعبے میں محنت کرنا والے ہر پانچ میں سے چار افراد اپنا روزگار کھو بیٹھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ صنعتوں میں 72فیصد لوگ روزگار سے محروم ہو گئے تھے یعنی ہر چار میں سے تین بے روزگار ہو گئے، اسی طریقے سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملازمت کرنے والے 67 فیصد افراد کی ملازمت ختم ہو گئی تھی، ان شعبوں کو اس لیے کھولنا ضروری تھا۔ اسد عمر نے روزگار بند ہونے سے مرتب ہونے والے اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 54 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ دیگر چیزوں کی خریداری کم کردی لیکن 50 فیصد افراد نے نسبتاً سستی چیز کھانی شروع کردی یا کم خریدنا شروع کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 47 فیصد افراد کو اس دوران اپنی جمع پونجی استعمال کرنی پڑی یا اپنے چھوٹے موٹے اثاثوں کو بیچنا پڑ گیا جبکہ 30 فیصد افراد نے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے قرض لے کر گزارا کیا۔
خبر کا کوڈ : 909634
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش