0
Friday 15 Jan 2021 20:43

کے ٹو پر تاریخ ساز مہم جوئی کے دوران ایک کوہ پیما زخمی، نیپالی ٹیم کیمپ فور پہنچ گئی

کے ٹو پر تاریخ ساز مہم جوئی کے دوران ایک کوہ پیما زخمی، نیپالی ٹیم کیمپ فور پہنچ گئی
اسلام ٹائمز۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو موسم سرما میں سر کرکے تاریخ رقم کرنے کی کوششوں کے دوران ایک کوہ پیما شدید زخمی ہو گیا جنہیں بیس کیمپ منتقل کر دیا گیا ہے تاہم ان کی حالت اب خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ دوسری جانب نیپالی کوہ پیماﺅں کی ایک ٹیم کیمپ فور پہنچ چکی ہے اور اس وقت سردی کے موسم میں یہاں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن گئی ہے۔ ہفتہ کے روز سہ پہر ایک بجے تک کے ٹو پر تاریخ رقم ہونے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔ نیپال سے تعلق رکھنے والے 10 کوہ پیما ہفتہ کے روز سہ پہر ایک بجے تک تاریخ رقم کر سکتے ہیں۔ الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ جمعہ کے روز سہ پہر دو بجے کے قریب نیپال سے تعلق رکھنے والا کوہ پیما جنگبو شرپا جاپانی کیمپ سے کیمپ ون منتقل ہونے کے دوران زخمی ہوا، کوہ پیما کی آنکھ اور سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں، ڈاکٹر تھامس ان کی نگہدانشت کر رہے ہیں۔

دریں اثناء جمعہ کے روز سہ پہر تین بجے کے قریب نیپالی کوہ پیما منگما ڈیوڈ، منگما ٹینزی اور منگما جی 26 ہزار فٹ بلندی پر کیمپ فور پہنچ گئے اور اس طرح انہوں نے اپنا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس پہلے سردیوں میں 25320 فٹ اونچائی تک پہنچنے کا ریکارڈ قائم کیا گیا تھا۔ یہ ریکارڈ بھی نیپالی ٹیم کے پاس ہی تھا۔ نیپالی کوہ پیما ہفتہ کے روز کیمپ فور سے آگے کی طرف بڑھیں گے اور کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرینگے۔ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ موسم صاف رہا اور کوہ پیماﺅں کی موجودہ رفتار کے مطابق ہفتہ کے روز سہ پہر ایک بجے تک سرد موسم میں تاریخ میں پہلی مرتبہ کے ٹو سر کرنے کی خبر آسکتی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ہفتہ کے روز موسم صاف رہے گا اور یہ کوہ پیماﺅں کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔ دوسری جانب علی سدپارہ، نرمل پورجا کی ٹیمیں کیمپ تھری تک پہنچ گئیں ہیں اور وہ کیمپ فور تک بڑھنے کی کوشش کررہی ہیں۔

کرار حیدری کے مطابق کیمپ فور سے آگے منزل قریب ضرور ہے لیکن مشکل تر ہے۔ موسم صاف رہا تو کیمپ فور سے آگے مسلسل 12 سے 14 گھنٹے چلنے کے بعد ہی چوٹی تک پہنچ سکیں گے اور پھر پہنچنے کے فوری بعد ہی نیچے اترنا ہوتا ہے کیونکہ ایک طرف کوہ پیما تھکاوٹ سے چور ہو چکا ہوتا ہے تو دوسری طرف ان کے پاس آکسیجن ( اگر استعمال ہوئی ہے تو) کا ذخیرہ بھی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی موسم کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی وقت برفانی طوفان کا سامنا ہو سکتا ہے اور ایسے میں نیچے کی طرف اترنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس لیے کوہ پیماﺅں کی کوشش ہوتی ہے کہ کے ٹو سر کرنے کے فوری بعد ہی بیس کیمپ تک پہنچا جائے۔

یاد رہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پر سردیوں کے موسم پر تاریخ ساز مہم جوئی کا آغاز گزشتہ سال کے آخر میں ہوا تھا۔ تاریخ کی سب سے بڑی مہم جوئی میں دنیا کے مختلف ممالک کے 55 سے زائد کوہ پیما حصہ لے رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ کے ٹو کو سردیوں کے موسم میں آج تک کوئی کوہ پیما سر نہ کر سکا اور سردیوں میں سر کرنے کی کوششوں کے دوران کئی کوہ پیماﺅں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ سخت موسم، نہایت مشکل چڑھائی کی وجہ سے اس چوٹی کو بے رحم پہاڑ بھی کہا جا تا ہے۔ کے ٹو کو پہلی مرتبہ اٹلی سے تعلق رکھنے والے دو کوہ پیماﺅں نے 1954ء میں سر کیا تھا، اس کے بعد سے اب تک 344 کوہ پیما کے ٹو سر کر چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 910361
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش