0
Friday 15 Jan 2021 21:49

تجاوزات آپریشن، اورنگی نالے کے اطراف ڈھائی ہزار گھر زد میں آئینگے

تجاوزات آپریشن، اورنگی نالے کے اطراف ڈھائی ہزار گھر زد میں آئینگے
اسلام ٹائمز۔ این ای ڈی یونیورسٹی نے سندھ حکومت کو سروے رپورٹ جمع کرائی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اورنگی نالے کے اطراف 30 فٹ کے اندر 2600 سے زائد مکانات اور دیگر عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں۔ یہ سروے رپورٹ این ای ڈی یونیورسٹی کی ٹیم نے اورنگی نالہ کے ہائیڈروولوجک اور ہائیڈرولک معائنہ کے بعد پیش کی ہے۔ یونیورسٹی کے ماہرین کراچی کے تمام برساتی نالوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس اگست میں کراچی میں تباہ کن بارشوں کے بعد جب شہر مفلوج ہوگیا، تو اس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے این ای ڈی یونیورسٹی کے ماہرین کو نالوں کے بارے میں تحقیق کی ذمہ داری سونپی۔ سپریم کورٹ نے بھی نالوں سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا ہے۔ اورنگی نالہ کراچی کے تین بڑے نالوں میں سے ایک ہے، جس کی لمبائی 11 کلومیڑ ہے اور انتہائی گنجان علاقوں سے گزرتا ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی کی ٹیم نے نالے کی چوڑائی اور گہرائی کا مطالعہ کرنے کیلئے گلوبل نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم سروے کیا جبکہ روٹ کی میپنگ کیلئے ڈرون کیمرہ استعمال کیا گیا۔ میپنگ سے واضح ہوا کہ نالے کا ’کیچمنٹ یا کلیکشن ایریا‘ 30.8 مربع کلومیٹر ہے۔ اس سے بارش کے پانی کا بہاؤ زیادہ سے زیادہ 45439 مکعب فٹ فی سیکنڈ پیدا ہوسکتا ہے۔

اگر اگست میں ہونے والی 270 ملی میٹر بارش کو دیکھا جائے، تو 12 گھنٹے کے دوران نالے میں بارش کے پانی کا بہاؤ 12700 مکعب فٹ فی سیکنڈ ہوتا۔ اگر حکومت اورنگی نالہ کے دونوں طرف 30 فٹ حصہ صاف کرنا چاہتی ہے، تو 2656 مکانات اور عمارتیں اس کی زد میں آئیں گے، ان میں سے 1703 عمارتوں کا آدھا حصہ توڑنا پڑے گا، جبکہ دیگر کے بعض حصے مسمار ہوں گے۔ این ای ڈی کی ٹیم پہلے ہی محمود آباد، منظور کالونی نالے کا سروے کر چکی ہے، جہاں 238 مکانات اور دکانوں کے مختلف حصے توڑے جائیں گے۔ اس پر کام شروع ہو چکا ہے، جبکہ اس اگلی باری اورنگی اور گجر نالے کی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پچھلے سال شہر میں بارشوں کا 90 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا، جس نے کراچی کو کئی دن تک مفلوج رکھا، جس کے باعث حکومت بھی کافی دباؤ میں آگئی تھی۔ حکومت کا خیال ہے کہ شہر کے تمام 44 برساتی نالے کچرا بھرنے سے بند ہوگئے ہیں۔ ان کی صفائی کی ضرورت ہے، جبکہ نالوں پر تجاوزات کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں، جس میں ایف ڈبلیو او اور این ڈی ایم اے بھی سندھ حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 910371
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش