0
Monday 18 Jan 2021 14:00

داعش کی مالی معاونت کے الزام میں این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کا طالبعلم گرفتار

داعش کی مالی معاونت کے الزام میں این ای ڈی یونیورسٹی کراچی کا طالبعلم گرفتار
اسلام ٹائمز۔ پولیس کے کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی جانب سے دہشت گرد تنظیم داعش کو مالی معاونت فراہم کرنے والے این ای ڈی یونیورسٹی کے طالبعلم کو گرفتار کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ کراچی میں سی ٹی ڈی کے عہدیدار راجہ عمر خطاب کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد حامد نے کہا کہ عمر خطاب کی سربراہی میں تحقیقات چل رہی تھیں اور سی ٹی ڈی کی تکنیکی ٹیم ان کی مدد کر رہی تھی، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے کی جا رہی تفتیش اب ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کاؤنٹر ٹیراریزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کو اطلاع ملی تھی کہ کچھ افراد کراچی میں پیسہ جمع کرکے بٹ کوائن میں منتقل کرکے شام میں داعش کے مرکز کو بھیج رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش میں یہ پتہ چلا کہ حافظ محمد عمر بن خالد نامی شخص اس میں ملوث تھا، سی ٹی ڈی نے پہلے اس کو 24 گھنٹے کے لیے حراست میں رکھا، پھر ہم نے اس کو رہا کرکے فون کی فارنسک کروائی اور اس فارنسک کی مدد سے منی ٹریل بنائی کہ رقم کس طرح اور کہاں منتقل ہو رہی تھی، پھر اس کو دوبارہ اس کیس میں گرفتار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس کی خصوصی بات دو تین چیزیں ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ مقامی لوگ شام جہادیوں کے اہلخانہ کو پیسے بھیج رہے تھے اور جن کو بھیج رہے تھے، وہ خواتین تھیں، جو میڈیا میں جہادی دلہنوں کے نام سے مشہور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیسے بھیجنے کا طریقہ کار بٹ کوائن کا اپنایا گیا، جو آن لائن رقم کی منتقلی کے حوالے سے ایک محفوظ کرنسی ہے، ایک عام کرنسی کے مقابلے میں جتنی بھی کرپٹو کرنسی ہیں، ان کی نگرانی نہیں کی جا رہی، تو جو بھی مجرم بین الاقومی سطح پر ایسی ٹرانزیکشنز کرنا چاہتے ہیں، جس کی کھوج نہ لگائی جا سکے، ان کے لیے کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن وغیرہ کی مدد سے آسانی ہوگئی ہے۔ اس موقع پر راجہ عمر خطاب نے کہا کہ جہادی خاندانوں نے وہاں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ بنائے ہوئے ہیں، جن کی مدد سے وہ لوگوں سے پیسوں کی اپیل کرتے ہیں، جو لوگ پیسے بھیجنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جا کر ان سے رابطہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رابطہ کرنے کے بعد پیسے بھیجنے کے لیے راضی کرنے کے بعد مسئلہ یہ آ رہا تھا کہ یہاں جو پیسے جمع ہو رہے ہیں، وہ اس ملک تک کیسے پہنچ سکیں، انہوں نے اس کا طریقہ یہ اپنایا کہ عمر بن خالد نے بھی اسی طرح سے رابطہ کیا تھا، جو این ای ڈی یونیورسٹی کے آخری سال کا طالبعلم ہے، اس نے ان کے کہنے پر اپنا ایک ایزی پیسہ اکاؤنٹ بنایا اور وہاں جہادی خواتین کو بتایا۔ سی ٹی افسر نے کہا کہ یہ خواتین عطیات دینے والوں کو کہتی تھیں کہ اس اکاؤنٹ میں ایزی پیسہ کر دیں، جب یہ ایزی پیسہ محمد عمر بن خالد کے پاس آتا تھا تو وہ آگے حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ضیاء نامی لڑکے کو ایزی پیسہ کر دیتا، پھر بٹ کوائن والا اس کو ڈالر میں منتقل کرتا اور یہاں سے وہ پیسے شام چلے جاتے، شام میں جو لوگ فنڈ لیتے تھے، ان کے اپنے بٹ کوائن کے اکاؤنٹ ہیں اور انہیں پاس ورڈ دکھا کر ڈالر کی شکل میں واپس پیسے مل جاتے ہیں۔

راجہ عمر خطاب نے دعویٰ کیا کہ پچھلے ایک سال میں یہ 10 لاکھ سے زیادہ رقم انہیں بھجوا چکا ہے اور جو لوگ محمد عمر بن خالد کو پیسے بھیجتے تھے، ان کا کھوج لگا سکتے ہیں کیونکہ ایزی پیسہ میں ضروری نہیں ہے کہ جو پیسے جمع کرانے جا رہا ہو، دکان والا اس سے اس کی آئی ڈی بھی لے، ہم اس معاملے پر بھی تفتیش کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں عمر شاہد حامد نے کہا کہ ماضی میں جو لڑکے جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے تھے، یہ اس سے ہٹ کر ہے، یہ این ای ڈی کا نوجوان ہے، جو ان مالیاتی جدتوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے، جن کی نگرانی نہیں کی جا رہی اور بین الاقوامی دہشت گردی کا پورا نظام قائم کر رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عمر بن خالد ہاتھ آگیا ہے اور دوسرے سہولتکار کے پیچھے ہم لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو کرنسی کے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں منفی اثرات نظر آ رہے ہیں، اس کے یقیناً فوائد بھی ہوں گے لیکن منفی چیز یہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد کو ایک ایسا راستہ مل رہا ہے، جس میں وہ پیسے لے سکتے ہیں اور ان کی کھوج بھی نہیں لگا جا سکتی۔

عمر شاہد حامد نے کہا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت و مدد کرنے والوں کے خلاف حالیہ عرصے میں بڑی کارروائیاں کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں قانونی ضوابط میں کی جا رہی مالی ٹرانزیکشنز میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں اب لوگ کرپٹو کرنسی کی طرف چلے گئے ہیں، اب یہ دیکھنا پڑے گا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ روکنے کے لیے اس کی نگرانی کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس موقع پر راجہ عمر خطاب نے کہا کہ عمر بن خالد کا ایک اور ساتھی سعد تھا، دو تین سال پہلے وہ غائب ہوگیا ہے، اس کا القاعدہ سے تعلق تھا، یہ دونوں بچپن سے ایک ساتھ رہے ہیں تو یہ اس سے بہت زیادہ متاثر تھا، 2018ء میں عمر بن خالد کو پکڑا گیا تھا لیکن وارننگ دے کر چھوڑ دیا گیا تھا، البتہ اس کے باوجود اس نے دوبارہ یہ کام شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس نے 2018ء کے اواخر سے یہ کام شروع کیا، اب یہ ہر مہینے کے حساب سے پیسے بھیج رہا تھا، شروع میں اسے نیٹ ورک بنانے میں وقت لگا لیکن بعد میں اسے مشکل نہ ہوئی۔

پاکستان میں داعش کے نیٹ ورک کی موجودگی کے حوالے سے سوال کے جواب میں عمر شاہد حامد نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں داعش کا نیٹ ورک کم ہوا ہے، یہ کیس اس بات کی نشانی ہے کہ اگر وہ اس طریقے سے پیسے مانگ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی فنڈنگ کم ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 2018ء کے بعد داعش کے سندھ اور بلوچستان کے دھڑوں کو بہت نقصانات اٹھانے پڑے، ان کے سینیئر کمانڈر مارے گئے یا گرفتار ہوئے اسی لیے پچھلے ڈیڑھ دو سال میں داعش کی سرگرمیوں میں بہت کمی آئی ہے اور وہ سرحد پار چلے گئے، جس کے بعد یہ مسئلہ آتا ہے کہ وہ دیگر ایجنسیوں کے کام شروع کر دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں مچھ جیسا واقعہ رونما ہوا۔ مولانا عادل کے کیس کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں بہت کوششیں کی گئیں، متعدد گروپوں کے لوگوں کو گرفتار کرکے ان سے تفتیش کی گئی، ابھی تک کچھ واضح نہیں ہوسکا، لیکن یہ کیس ہماری ترجیحات میں شامل ہے، لہٰذا ہمیں امید ہے کہ اس کیس پر ہونے والی محنت کا ہمیں ضرور پھل مل جائے گا۔ واضح رہے کہ گذشتہ سال 11 اکتوبر کو کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں نامعلوم افراد نے جامعہ فاروقیہ کے مہتمم مولانا ڈاکٹر عادل خان اور ان کے ڈرائیور کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔

دیگر ذرائع کے مطابق سی ٹی ڈی نے کراچی سے پیسے جمع کرکے داعش کو شام بھیجے جانے کا انکشاف کیا ہے۔ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عمر شاہد نے دیگر افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ٹیرر فنڈنگ کے حوالے تفتیش کافی عرصے سے جاری تھی، کراچی سے پیسے جمع کرکے داعش کو شام بھیجے جا رہے تھے۔ عمر شاہد نے بتایا کہ حافظ عمر بن خالد نامی شخص کو حراست میں لے کر فرانزک کرائی گئی، عمر بن خالد این ای ڈی یونیورسٹی کا فائنل ائیر کا طالبعلم بھی ہے، ملزمان شام میں داعش کی خواتین کو پیسے بھیج رہے تھے۔

ملزم نے اپنا موبائل فون والا اکاؤنٹ بنوایا اور لوگوں سے اس اکاؤنٹ میں پیسے منگوا کر حیدرآباد میں ساتھی کے ذریعے بھیجے جاتے تھے۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق حیدرآباد میں ملزم ضیاء پیسوں کو ڈالر اور پھر بٹ کوائن میں منتقل کرکے شام منتقل کرتا تھا، جس کے تحت ملزمان ایک سال کے اندر ایک ملین ڈالر منتقل کرچکے ہیں۔ سی ٹی ڈی حکام نے بتایا کہ ٹوئٹر اکاونٹ کے ذریعے جہادی فیملیز فنڈنگ کا مطالبہ کرتی ہیں اور رابطوں کے لیے سوشل میڈیا ایپ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 910857
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش