0
Sunday 7 Feb 2021 22:34

سپریم کورٹ، اپیلیٹ کورٹ جی بی کے ججز کی پنشن روکنے کیلئے آئینی درخواست دائر

سپریم کورٹ، اپیلیٹ کورٹ جی بی کے ججز کی پنشن روکنے کیلئے آئینی درخواست دائر
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک آئینی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں جی بی کی سپریم اپیلیت کورٹ کے ججوں کی پنشن کو خلاف قانون اور قومی خزانے کا ضیاع قرار دیتے ہوئے پنشن بند کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے ممبر محمد ابراہیم کی جانب سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 184-3 کے تحت ملک کے معروف قانون دان عارف چوہدری جو پنجاب بار کے وائس چیئرمین اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر رہ چکے ہیں کے زریعے دائر آئینی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ کے جج اور چیف ججز کنٹریکٹ پر تین سال کی مدت کیلئے مقرر ہوتے ہیں۔ آئین اور قانون کی رو سے کنٹریکٹ ملازم پنشن کا حقدار نہیں ہوتا لیکن گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ میں کنٹریکٹ پر تعینات ہونے والے ججز اور چیف ججز کو پنشن کی مد میں کروڑوں روپے ادا کیے گئے جبکہ ماہانہ قومی خزانے سے لاکھوں روپے دیئے جا رہے ہیں۔

مثال کے طور پر سابق چیف جج رانا محمد شمیم کو پنشن کی مد میں 6 کروڑ 73 لاکھ روپے سے زائد کی رقم قومی خزانے سے ادا کی گئی جبکہ 27 سو سی سی گاڑی اور ماہانہ لاکھوں روپے بھی پنشن کی مد میں دیئے  جا رہے ہیں۔ 2009ء سے اب تک جتنے بھی جج اور چیف جج ریٹائرڈ ہوئے انہیں پنشن کی مد میں کروڑوں روپے قومی خزانے سے ادا کیے گئے جبکہ ماہانہ لاکھوں روپے دیئے جا رہے ہیں۔ پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ کے چیف ججز اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا موازنہ ہی درست نہیں کیونکہ سپریم کورٹ میں کوئی بھی چج 65 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو جاتا ہے، ہائیکورٹ میں ریٹائرمنٹ کی حد 63 سال ہے لیکن جی بی کی اپیلیٹ کورٹ میں کوئی بھی عمر معین نہیں۔ واضح رہے کہ سابق چیف جج رانا محمد شمیم 65 سال کی عمر میں بھرتی ہوئے حالانکہ سپریم کورٹ میں اس عمر میں چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو جاتا ہے اور پھر یہاں جی بی میں رانا شمیم 68 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو گئے۔

اسی طرح سابق چیف جج نواز عباسی سپریم کورٹ سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد 66 سال کی عمر میں گلگت بلتستان میں چیف جج بھرتی ہوئے اور رانا ارشد تقریبا ستر سال کی عمر میں چیف جج بھرتی ہوئے۔ گویا سپریم اپیلیٹ کورٹ میں کوئی شرائط و ضوابط ہی نہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جج نواز عباسی جب سپریم کورٹ میں تھے تو انہوں نے 2008ء میں اپنی سربراہی میں ایک فیصلہ دیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے جج خواہ وہ کسی بھی عرصہ کیلئے ہی تعینات ہوا ہو پنشن کے حقدار ہونگے۔ اس کے بعد وہ سپریم کورٹ سے ریٹائرڈ ہو گئے اور 2009ء میں گلگت بلتستان میں چیف جج بھرتی ہوئے، سپریم کورٹ میں اپنی سربراہی میں دیئے گئے فیصلے کو بنیاد بنا کر نواز عباسی نے گلگت بلتستان میں بھی اپنی پنشن کے حق میں بھی ایک فیصلہ دیا اور گورنس آرڈر میں بھی پنشن کا معاملہ شامل کر وا دیا۔ اس فیصلے کی قانون میں کوئی گنجائش ہی موجود نہیں تھی۔

2013ء میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے ایک اور فیصلہ دیتے ہوئے 2008 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ پانچ سال سے کم مدت ملازمت والے ججز پنشن کے حقدار نہیں ہونگے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد دو، تین سال ملازمت کرنے والے کئی ججز پنشن سے محروم ہوگئے تھے۔ درخواست میں سوال اٹھایا گیا کہ سپریم کورٹ کے دو ہزار آٹھ کے فیصلے کو گلگت بلتستان میں لاگو کروا دیا گیا لیکن دو ہزار تیرہ کے فیصلے کا اطلاق ہونے نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ جب 2018ء کا آرڈر نافذ ہوا تو اس میں سپریم اپیلیٹ کورٹ کے ججز اور چیف جج کی پنشن ختم کی گئی تھی۔ آرڈر 2018 کے سیکشن 75 کے مطابق اپیلیٹ کورٹ کے ججز کی تنخواہ سپریم کورٹ کے ججز کے برابر ہوگی لیکن پنشن کے حقدار نہیں ہونگے اس کے باﺅجود رانا محمد شمیم اسی آرڈر نافذ ہونے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے لیکن انہیں چھ کروڑ ستر لاکھ روپے سے زائد کی رقم پنشن کی مد میں ادا کی گئی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے تحت پنشن غیر قانونی طور پر ادا کی گئی اور یہ عمل سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ اور سپریم اپیلیٹ کورٹ کے ججز یا چیف جسٹس کیلئے شرائط و ضوابط برابر ہیں تو یہ شرائط یکساں طور پر لاگو ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کی شرائط کی روشنی میں 65 سال کی عمر کے بعد تو کوئی جج بھرتی ہو ہی نہیں سکتا۔ درخواست میں ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم اپیلیٹ کورٹ کے چیف جج کیلئے شرائط برابر ہیں چونکہ وفاقی شرعی عدالت میں تین سال کیلئے جسٹس مقرر ہوتا ہے اس لیے شرعی عدالت کے جج کو کوئی پنشن نہیں ملتی۔ پٹیشن میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس پنشن کا حقدار نہیں ہے تو پھر سپریم اپیلیٹ کورٹ کے ججز کو کروڑوں میں پنشن کیوں دی جا رہی ہے؟

آئینی درخواست میں گلگت بلتستان اسمبلی کی ایک قرار داد کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ ستمبر 2011ء میں اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد میں ججز کی پنشن بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ گلگت بلتستان اپیلیٹ کورٹ کے ججوں کی تقرری کا طریقہ کار سپریم کورٹ آف پاکستان یا سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر بلکہ چیف کورٹ جی بی کے ججوں کے طریقہ کار کے برعکس تین سال کی عارضی مدت کیلئے عمل میں لائی جاتی ہے اور ہر تین سال بعد مزید تقرری کے اختیارات بھی حکومت کے پاس ہے، اس طریقہ کار کو یہ ایوان عدالت عظمیٰ کو انتظامیہ کے زیر بازو رکھنے کے مترادف قرار دیتا ہے۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ جو جج تین سال تک سپریم اپیلیٹ کورٹ میں ہی خدمات انجام دیتے ہوئے بہتر عدالتی تجربہ حاصل کر چکا ہو اس کے تجربات سے مزید استفادہ کرنے کی بجائے ہر تین سال کے بعد مالی بحران کے اس دور میں ماہانہ لاکھوں روپے پنشن اور دیگر پرکشش مراعات کے ساتھ فارغ کرنے کے عمل کو یہ مقتدر ایوان ناقابل فہم اور عوامی خزانے پر ایک مسلسل بوجھ قرار دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 914891
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش