0
Wednesday 17 Feb 2021 01:16

فرانس میں مسلمانوں پر پابندیاں اور نگرانی سخت کرنیکا قانون منظور

فرانس میں مسلمانوں پر پابندیاں اور نگرانی سخت کرنیکا قانون منظور
اسلام ٹائمز۔ فرانس میں انتہاء پسندی کی روک تھام  کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سخت پابندیوں اور کڑی نگرانی کے لیے قانون منظور کر لیا گیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس کی قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے اس بل کا مقصد بظاہر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے مذہبی تنظیموں کی کڑی نگرانی، تشدد کے واقعات کو جواز فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی، عام اسکولوں سے ہٹ کر اداروں میں بچوں کی تعلیم اور جبری شادی وغیرہ کی روک تھام کرنے میں مدد لی جائے گی، تاہم قانون سازی میں ان اقدامات کو ’’اسلام ازم‘‘ یا ’’اسلامی علیحدگی پسندی‘‘ کے تدارک سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس قانون سازی کے بعد خصوصاً فرانس میں مساجد، ان کے انتظامات چلانے والی تنظیموں اور بچوں کی گھر میں تعلیم سمیت مسلمانوں کی کڑی نگرانی کے لیے ریاستی اداروں کو کئی اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جماعت نے اس قانون سازی کے لیے زور و شور سے مہم چلائی، جس کے نتیجے میں فرانسیسی قومی اسمبلی کے 347 ارکان نے اس قانون کے حق میں  اور 151 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 65 اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے۔

فرانسیسی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں کی جانب سے ایسے مجوزہ قوانین کی مخالفت کی گئی تھی جبکہ دوسری جانب دنیا کے 13 ممالک سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی 36 غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق میں اس قانون سازی اور فرانس میں مسلمان مخالف اقدامات کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے۔ دنیا بھر کی نمایاں حقوق انسانی کی تنظیموں نے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے کہ فرانس میں مسلمانوں کے خلاف دو دہائیوں سے جاری ریاستی اقدامات روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ان 36 تنظیموں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی سے متعدد بنیادی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ موجودہ قانون سازی کے ذریعے فرانس نے اپنے طرز کے سیکیولرزم (لیست) کو ہتھیار بند کرلیا ہے اور مسلمانوں کی سیاسی و مذہبی سرگرمیوں میں ریاستی مداخلت کا جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔

ان تنظیموں نے بین الاقوامی اداروں سے اپیل کی ہے کہ ایسی قانون سازی کے نفاذ کو روکنے کے لیے مداخلت کریں کیونکہ فرانس کے قانون میں اس امتیازی سلوک سے بچاؤ کا کوئی مؤثر طریقہ دستیاب نہیں ہے۔ دوسری جانب اسمبلی میں قانون کا دفاع کرتے ہوئے انتہائی دائیں بازو کی رہنماء میرین لے پین نے کہا ہے کہ ’’چند اسلام پسندوں کی شخصی آزادیوں کو محفوظ کرنے کے لیے اکثریت کی آزادیوں میں تبدیلیاں نہیں کی جاسکتیں۔‘‘ واضح رہے کہ فرانس میں 50 لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ماضی میں فرانسیسی نوآبادیات رہنے والے افریقی ملک الجیریا سے ہے۔ فرانس کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مختلف قوانین ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں، تاہم گذشتہ برس توہین آمیز خاکوں کی اسکول میں تشہیر کرنے والے استاد کے قتل کے بعد سے فرانس میں اسلام کی مخالفت کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور یہ قانون سازی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
خبر کا کوڈ : 916685
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش