0
Sunday 21 Feb 2021 00:02

ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہوتا ہے، رضا ربانی

ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہوتا ہے، رضا ربانی
اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ سینیٹ میں سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا اور اگر کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے، متناسب نمائندگی کا ذکر آرٹیکل 51 اور ارٹیکل 59 دونوں میں ہے، سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔ رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے، سیاسی اتحاد عام طور پر خفیہ ہی ہوتا ہے البتہ اگر کوئی انفرادی شخص سینیٹ ممبر بننا چاہے تو ہارس ٹریڈنگ ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ 

اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔ سینیٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے بھی سینیٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے جس پر رضا ربانی نے کہا متناسب نمائندگی کی عدالت جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل حالات والی ہے ، جبکہ سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے آپ سینیٹر اور سنجیدہ وکیل ہیں،سیاسی جماعت کی نمائندگی صوبے میں تناسب کے مطابق ہونی چاہئے جس پر رضا ربانی نے کہا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ق اور پاکستان تحریک انصاف کا اتحاد ہے پی ٹی آئی نے سینیٹ میں ق لیگ کو بھی نشست دی ہے ، ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ سیاسی اتحاد عام طو رپر خفیہ ہی ہوتا ہے کوئی انفرادی شخص سینیٹ ممبر بننا چاہے تو ہارس ٹریڈنگ ہوسکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہر سیاسی جماعت کی تعداد کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی ہونا چاہیے، ووٹ خفیہ رکھنے کے پیچھے کیا منطق تھی جس پر رضا ربانی نے کہا شاید ووٹ خفیہ اس وجہ سے رکھا گیا کہ کسی جماعت کا صحیح تناسب نہ آسکے۔ 

چیف جسٹس نے کہا متناسب نمائندگی سے متعلق بتائیں جس پررضا ربانی نے کہا سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی بھی آئین سازی کے ضمن میں تھی متناسب نمائندگی کی عدالت جو تشریح کررہی ہے وہ آئیڈیل حالات والی ہے سیاسی معاملات کبھی بھی آئیڈیل نہیں ہوتے۔ قبل ازیں دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ کوشش کروں گا کہ اپنے دلائل مختصر رکھوں، سینیٹ کی تشکیل کا بنیادی مقصد فیڈریشن ہے،قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات میں فیڈریشن اہم نکتہ تھا۔ سینیٹ قائم کرنے کا مقصد گھٹن کا ماحول کو ختم کر کے متناسب نمائندگی دینا ہے، چار صوبائی نشستوں والی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو بھی سینیٹ میں نمائندگی ملتی ہے، بلوچستان اسمبلی میں تین یا چار اراکین کے باوجود دو سینیٹرز موجود ہیں۔

رضا ربانی نے کہا کہ آپ سینیٹ کی تشکیل اور مقصدیت کو سامنے رکھیں، پاکستان کے عوام کی اکثریت قومی اسمبلی میں ہوتی ہے، ہاؤس آف لارڈ اور ہاؤس آف کامن میں بھی تنازع دیکھا جاسکتا ہے، ہاؤس آف کامن کے پاس عوامی نمائندگی ہوتی ہے، بل قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد سینیٹ مسترد بھی کرسکتا ہے۔ سینیٹ کو بل پر90 روز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے، ہمیں آئین سازوں کے دماغ کو سمجھنا ہوگا، ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی اتحاد میں فرق ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ صدر نے پوچھا ہے کہ خفیہ بیلٹ کا اطلاق سینیٹ پر بھی ہوتاہے کہ نہیں حکومت نے ایسا تاثر دیا ہے کہ جیسے مقدمہ 3))184 کے دائرہ اختیار کا ہے۔ 

سینیٹر رضا ربانی نے اپنے دلائل میں مزید کہا سینیٹ کے قیام کا مقصد صوبوں کی یکساں نمائندگی ہے، پارلیمانی نظام میں دونوں ایوان کبھی اتفاق رائے سے نہیں چلتے، دونوں ایوانوں میں اختلاف رائے نہ ہونا غیر فطری ہوگا، لازمی نہیں وفاقی حکمران جماعت کی صوبے میں بھی اکثریت ہو اپوزیشن کے اتحاد سے بھی سینیٹ میں نشستوں کا تناسب بدل سکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی کا ذکر آرٹیکل 51 اور 59 دونوں میں ہے سیاسی جماعتوں کے اتحاد سے بھی متناسب نمائندگی پر فرق نہیں پڑتا، کسی جماعت نے اتحاد کرنا ہے تو کھلے عام کرے۔ 

رضا ربانی کا دلائل میں کہنا تھا کہ متناسب نمائندگی کے نقطے پر تفصیلی موقف دوں گا، متناسب نمائندگی کے نظام کے نیچے بھی تین مختلف نظام موجود ہیں، ہر آرٹیکل میں الگ نظام سے متعلق بتایا گیا ہے، قومی اسمبلی عوام اور سینیٹ وفاقی اکائیوں کا نمائندہ ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ پیر کو خفیہ رائے شماری پر اورآرٹیکل 226 کے سینیٹ انتخابات پر اطلاق سے متعلق بھی دلائل دوں گا۔جسکے بعد صدارتی ریفرنس کی مزید سماعت پیر 22 فروری دن 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔
 
خبر کا کوڈ : 917455
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش