0
Tuesday 23 Feb 2021 19:38

امریکہ ایران کو جھکانے میں ناکام ہوگیا

امریکہ ایران کو جھکانے میں ناکام ہوگیا
تحریر: تصور حسین شہزاد

ایران کے رہبرِ انقلابِ اسلامی، آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے ایک بیان نے امریکہ میں کھلبلی مچا دی ہے۔ مختصر مگر مدلل بیان نے امریکہ سمیت استعماریوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور ان کی کھوکھلی حیثیت کو زمین بوس کر ڈالا ہے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری سے ہمیں اسلام روکتا ہے، ہم بنانا چاہیں تو استعمار کیا اس کا باپ بھی ہمیں نہیں روک سکتا۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے اس بیان پر امریکی تِلملا اُٹھے ہیں، گویا رہبر معظم نے اُن کی دم پر پاوں رکھ دیا ہو۔ رہبر معظم نے کہا کہ امریکہ کے ایٹمی معاہدے سے نکل جانے اور یورپ کی جانب سے بھی اس کا ساتھ دیئے جانے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران ایٹمی معاہدے سے نہیں نکلا، بلکہ اس نے ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں بتدریج کمی کی ہے۔

ایران نے واضح کر دیا ہے کہ فریقِ مقابل کی جانب سے وعدوں کی پاسداری کی صورت میں سارے اقدامات واپس لیے جا سکتے ہیں۔ اس جملے نے امریکہ کی منافقت کو بے نقاب کیا ہے اور عالمی برادری سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ امریکہ ایک طرف کچھ کہتا ہے جبکہ عملی طور پر کچھ اور کرتا ہے، اس کا دوہرا معیار سامنے آگیا ہے۔ رہبر معظم نے کہا "عالمی صیہونزم کا مسخرہ" مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے نہیں دیں گے۔ اگر ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرلے تو وہ کیا اس کے بڑے بھی ہمیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتے۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ امریکہ ایران کے مقابلے میں بے بس اور لاچار ہے۔ وہ ایران کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر رہبر معظم نے کہا کہ ایران یورینیم کی افزودگی صرف بیس فیصد تک محدود نہیں رکھے گا، ہمیں اور ملک کو جس مقدار میں یورینیم افزودہ کرنے کی ضرورت ہوگی، ہم افزدوہ کریں گے۔

مثال کے طور پر ایٹمی پروپیلروں یا دیگر کاموں کیلئے ہم یورینیم کی افزودگی کو ساٹھ فیصد تک لے جا سکتے ہیں۔ یورنیم کی افزدگی کی شرح کو 60 فیصد تک لے جانے کے امکان نے امریکہ کے سارے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا ہے۔ امریکہ دنیا کو باور کروا رہا تھا کہ ہم نے ایران کو مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ 20 فیصد سے زیادہ یورنیم افزدوہ نہیں کرسکتا۔ مگر رہبر معظم کے اس بیان نے امریکہ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اب امریکہ رہبر کے اس بیان کو ’’دھمکی‘‘ قرار دے رہا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے ایک عام بیان کو دھمکی قرار دیا جا رہا ہے، اگر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے واقعی دھمکی دیدی تو امریکہ کا کیا بنے گا۔

رہبر معظم کے بیان پر امریکہ نے اپنی ترجمان کو آگے کر دیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے میڈیا سے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ یورینیئم افزودگی کو روکنے اور مذاکرات پر راضی ہونے سے قبل امریکا ایران پر عائد پابندیاں نہیں اُٹھائے گا۔ جین ساکی کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے اور یورینیئم افزودگی کی مقدار بڑھانے کے متنازع بیان کی دھمکی میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی امریکا اپنی پالیسی تبدیل کرے گا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا کہ ایران سے متعلق پالیسی اتفاق رائے سے تیار کی گئی تھی اور موجودہ حکومت بھی آئندہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کیلئے کانگریس سے مشاورت کریں گی، تاہم یہ ایران کی جوہری معاہدے کی پاسداری سے مشروط ہے۔

جین ساکی نے یہ بھی کہا کہ یورپی یونین کے بیان میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی مشاورت میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کیلئے ہم ایران کی جانب سے دعوت نامے کا جواب دینے کا انتظار کریں گے۔ اس صورتحال میں ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ ایران کے معاملے میں بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے معاہدے کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔ جب امریکہ کی جانب سے معاہدے کی پاسداری نہیں ہو رہی، آئے روز مختلف حیلوں بہانوں سے ایرانی قوم پر اقتصادی پابندیاں لگا کر انہیں مارنے کی کوششیں کی جاتی ہیں، تو کیا ردعمل میں ایرانی قوم امریکیوں کو پھولوں کے ہار پہنائے گی؟ مبصرین کے مطابق ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، یہ عمل اور ردعمل دونوں برابر لیکن سمت میں مخالف ہوتے ہیں۔ فزکس کے اس اصول کے پیش نظر ایران کا یہ ردعمل ہے، جو رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اپنے بیان میں دیا ہے۔ امریکہ اگر منافقت کرتا ہے تو اس کی منافقت کا جواب بھی ایران موثر انداز میں دے سکتا ہے، مگر کچھ مذہبی حدود و قیود اس کی اجازت نہیں دیتیں، بصورت دیگر ایران امریکہ کو ایک دن بھی سانس نہ لینے دیتا۔

ایران کے دفاع کے حوالے سے بھی مبصرین پُرامید ہیں اور کہتے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کو ایک سال سے زائد عرصہ بیت گیا ہے، مگر امریکہ تاحال ایران کے ردعمل کے خوف سے ہی نہیں نکل پایا، یہی وجہ ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ سے مٹھی سے سرکتی ریت کی طرح نکلتا جا رہا ہے۔ امریکہ کے بستر گول کرنے سے کچھ ایسے ممالک جنہوں نے امریکہ کی پشت پناہی سے علاقے میں تھانیدار بننے کی کوشش کی اور ہمسایہ ممالک کو دبانے کی کوششیں کرتے رہے، ان کی پریشانیاں اَب بڑھ گئی ہیں اور امریکہ کے پاوں پکڑے اسے خطے میں قیام جاری رکھنے کی منتیں کر رہے ہیں کہ انہیں تنہا چھوڑ کر نہ جائیں، جبکہ امریکہ کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے پر بعض مبصرین توقع کر رہے تھے کہ ایران امریکہ تعلقات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے۔

مگر راقم کو ایسی کوئی صورتحال دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ ایران سے جو مطالبات کر رہا ہے، وہ ناقابل عمل ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران اپنا میزائل پروگرام رول بیک کر لے۔ ایران اس پر کسی طور بھی رضامند نہیں ہوگا۔ ظاہر ہے ایران کے دفاعی نظام کا زیادہ تر انحصار اس کی جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی پر ہے۔ ایران کے پاس ایسے ایسے خطرناک میزائل ہیں کہ امریکہ نے کبھی ان کی رینج اور ان سے ہونیوالی تباہی کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا۔ ایران کی مسلح افواج اور حکومتی اہلکار دو ٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ میزائل پروگرام کا تو تذکرہ ہی نہ کیا جائے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی میزائل پروگرام کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ یہ ایران کا میزائل پروگرام ہی ہے جس نے دشمن کو ایران پر حملہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنے پر مجبور کیا ہے۔

ایران کو کسی بھی صورت اپنا دفاع کمزور نہیں کرنا چاہیئے اور میزائل پروگرام کسی صورت محدود نہیں کرنا چاہیئے۔ آیت اللہ سید علی خامنہ ای کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران خطے میں قیامِ امن کیلئے کوشاں ہے، کیونکہ خطے میں بدامنی سے امریکہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کا ماحول پیدا کرکے اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے، ماضی میں تو ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ دو لڑنے والے ممالک کو امریکہ ہی دونوں طرف اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔ ایسی صورت میں امریکہ پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران خطے میں قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہے، تاکہ امریکہ کی دکانداری ختم ہو اور مشرق وسطیٰ کے ممالک چین سے زندگی گزار سکیں۔
خبر کا کوڈ : 917961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش