0
Friday 26 Feb 2021 13:42

جمال خاشقجی کے قتل پر دہرا معیار

جمال خاشقجی کے قتل پر دہرا معیار
تحریر: نادر بلوچ

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار اور سعودی صحافی جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018ء میں ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں بلا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور لاش کو ٹکڑے ٹکرے کرکے بہا دیا گیا تھا، پہلے موت کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، مگر ناحق خون چھپتا بھی تو کیسے؟، ترک صدر نے تمام سی سی ٹی فوٹیجز جاری کیں اور ساتھ میں اپنے ملک میں ہونے والے اس اندوہناک واقعہ کی ہر پہلو سے تفتیش کا بھی اعلان کیا، جس کے باعث سعودی عرب اور ترکی کے درمیان تعلقات بھی متاثر ہوئے۔ معاملے پر اقوام متحدہ کی ٹیم نے تحقیقات شروع کیں، سی آئی اے نے 2018ء میں ہی خفیہ رپورٹ مرتب کرکے اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے کی، شروع شروع میں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ذمہ داروں کو ٹھکانے لگانے اور انصاف فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے، مگر جب نام اپنے دوست اور دودھ دینے والی گائے کا آیا تو اس رپورٹ کو بطور بلیک میلنگ چپ کے طور پر استعمال کیا، یوں سمجھیے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے رپورٹ دبا دی۔

سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ کو کانگرس میں بھی پیش کیا گیا، امریکی قانون سازوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبے کے باوجود صدر ٹرمپ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو مسترد کیا، پہلے تو ریاض کی جانب سے اس معاملے پر مٹی ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر جب ناکام ہوئے تو تسلیم کیا گیا کہ واقعہ ضرور ہوا ہے، لیکن اس میں ایم بی ایس کا کوئی کردار نہیں ہے، سعودی ولی عہدے کے ایماء پر قونصل خانے کے ممبران سمیت چھ افراد کو سزائے موت سنائی گئی، بعد میں جمال خاشقجی کے اہلخانہ کو جبراً مجبور کرکے سزائے موت کو بھی 20، 20 سال قید میں تبدیل کرایا گیا۔ اس دوران عالمی تنظیمیں مسلسل اپنے مطالبات دہراتی رہیں اور صحافی کے قاتلوں کو سزا دلانے کی تحریک زور پکڑتی رہی، مگر امریکی صدر ٹرمپ نے معاملے کو قالین تلے دبانے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔

نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی الیکشن کمپئین میں اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ جمال خاشقجی سے متعلق خفیہ رپورٹ کو پبلک کریں گے اور ذمہ داران کو سزا ملے گی۔ حلف لیتے ہی انہوں نے اپنے عزم کو دہرایا اور ایک ماہ میں رپورٹ پبلک کرنے کا اعلان کیا گیا۔ دو روز قبل انہوں نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ سی آئی اے کی رپورٹ پڑھ لی، اب پبلش کرنا باقی ہے، وائٹ ہاوس کے مطابق جوبائیڈن رپورٹ پبلک کرنے سے پہلے سعودی بادشاہ کو ٹیلی فون کریں گے اور انہیں رپورٹ پبلک کرنے سے متعلق آگاہ کریں گے، اس حوالے سے آج ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوگیا ہے لیکن وائٹ ہاوس کے بیان میں جمال خاشقجی سے متعلق رپورٹ کا ذکر شامل نہیں، ٹیلی فونک رابطے کے حوالے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے سعودی عرب کی جانب سے سعودی نژاد امریکی کارکنوں اور بالخصوص انسانی حقوق کی کارکن لجین الھذول کی رہائی کو سراہا ہے اور امریکہ کی جانب سے عالمی انسانی حقوق اور قوانین کی پاسداری کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ بائیڈن نے یمن جنگ روکنے سے متعلق بھی بات کی ہے۔

دوسری طرف رائٹر نے خفیہ رپورٹ کے چند نکات سے پردہ ہٹایا ہے، چار امریکی آفیشلز نے رپورٹ کے حوالے سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی منظوری سعودی ولی عہدے نے دی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ واشنگٹن پوسٹ کے 59 سالہ کالم نگار کو ولی عہد کی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ قتل کیا گیا، اب اہم سوال یہ ہے کہ بائیڈن بھی ٹرمپ کی طرح جمال خاشقجی کے قتل کو بارگین چپ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب سے پیسے اینٹھیں گے یا کچھ کریں گے۔؟ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو اس حوالے سے امریکی تاریخ سیاہ ہے، کیونکہ امریکیوں کے ہاں مفادات پر مبنی پالیسیاں بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کو ہمیشہ انہوں نے اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا ہے۔ مبصرین کو اب بھی جمال خاشقجی کے اہلخانہ کو انصاف ملتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
خبر کا کوڈ : 918453
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش