0
Sunday 28 Feb 2021 18:17
جشن مولود کعبہؑ اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے 11ویں یوم تاسیس کی تقریب

نجات کا واحد راستہ بیداری اور بیداری کا نصاب ہے، علامہ جواد نقوی

نجات کا واحد راستہ بیداری اور بیداری کا نصاب ہے، علامہ جواد نقوی
اسلام ٹائمز۔ مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمہ اور تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ کے زیر انتظام، امام المتقیان حضرت علی (ع) کے روز ولادت اور  شجرہ طیبیہ حوزہ علمیہ جامعہ العروۃ الوثقی کے 11ویں یوم تاسیس کی مناسبت سے اُمت اسلامیہ کا ایک وحدت آفریں اجتماع بعنوان جشن میلاد بوتراب (ع) منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے ہزاروں افراد کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کی جید شخصیات علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری سربراہ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان، ممتاز سکالر جسٹس ریٹائرڈ نذیر احمد غازی، علامہ پیر شفاعت رسول سربراہ مرکز بلال لاہور، پروفیسر قاری ظفر اللہ شفیق سربراہ اسلامک ڈیپارٹمنٹ ایچ ای سن کالج لاہور، میاں مقصود احمد جماعت اسلامی، صدر علماء و مشائخ رابطہ کونسل پاکستان، حجتہ الاسلام علامہ مرزا یوسف حسین صدر متحدہ علماء محاذ و دیگر نے شرکت کی۔

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ شیر خدا حضرت علی (ع) کی زندگی کا ہر پل، ہر فیصلہ اور ہر اقدام شجاعت کی مثال ہے، امیر المونینؑ  اسوہ ہیں، اسوہ یعنی قابلِ تقلید مثال، اسوہ یعنی سر مشق! سر مشقِ  عبودیت، سر مشقِ سیاست، سر مشقِ بصیرت، سر مشقِ عفت، سر مشقِ عبادت، سر مشقِ اطاعت، سر مشقِ  امامت اور سر مشقِ شجاعت! امیر المونین ؑ کو اسوہِ عمل قرار دے کر ہمیں اپنے کردار و عمل کو ڈھالنا ہے! خدا وند تبارک و تعالیٰ نے ان ہستیوں کو رول ماڈل اور اسوہ بنایا ہے اور ہم نے انہیں چھوڑ کر فلموں اور ڈراموں سے فاسد اسوے چن لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر المومنینؑ سے سیکھنا ہو گا جب اسلام کے دفاع کا وقت آئے تو میدان میں حاضر کیسے ہونا ہے، اپنے زمانے کے مرحب و عنتر کو کیسے پچَھاڑنا ہے، آج کے قلعۂ یہود کو کیسے فتح کرنا ہے، علمی مسائل کیسے حل کرنے ہیں، محرابِ مسجد کو کیسے آباد کرنا ہے، مردِ میدان کیسے بننا ہے، عدل و انصاف کیسے قائم کرنا ہے، صبر و استقامت کیسے دکھانی ہے، امرِ امامت کو کیسے زندہ کرنا ہے اور عشقِ الٰہی کیسے اختیار کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ علی علیہ السلام کائنات کی  مظلوم ترین ہستی ہیں۔ علیؑ تنہا ہیں۔ جب آپ ؑ کلام کرتے ہیں تو لوگ آپ کی گفتگو کا مطلب نہیں سمجھتے یا سمجھنا نہیں چاہتے، جب خاموش ہوتے ہیں تو سکوت کا مطلب سمجھ نہیں آتا۔ کوئی ایسا نہیں جو علیؑ کے نطق و سکوت کا مفہوم جانتا ہو، کوئی ایسا نہیں جو علیؑ کی حکمتوں سے آشنا ہو، کوئی ایسا نہیں جو  میدان میں علیؑ کا ہم رکاب ہو، کوئی ایسا نہیں جو علیؑ کے حکم پر سرِ تسلیم خم کر دے، کوئی ایسا نہیں جو علیؑ کے مقابلے میں اپنی رائے نہ رکھتا ہو۔ ہاں مگر کچھ ایسے تھے جو علیؑ کی آنکھوں کے اشارے بھی سمجھتے تھے، علیؑ کا کلام بھی سمجھتے تھے اور علیؑ کی خاموشی سے بھی واقف تھے، وہ علی علیہ السلام کے انصار تھے اور علیؑ کو انہی کی حسرت تھی۔ مقررین نے کہا کہ امیر المومنین ؑ کو ناصرین اور مددگاروں کی حسرت تھی لیکن امیر المومنینؑ کو ناصر نہیں ناسور ملے۔ آج بھی امیر المومنینؑ کو ناصرین کی حسرت ہے جو مقصدِ امیر المومنینؑ، راہِ امیر المومنینؑ اور سبیلِ امیر المومنینؑ کو جاری رکھیں۔

پروگرام کے آخر میں اپنے خصوصی خطاب میں صدر مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ علامہ سید جواد نقوی نے کہا  آج ہماری مملکت اور اس دنیا کی بد حالی کی وجہ حماقتوں کی پیروی اور حکمتوں سے دوری ہے۔ ہمیں حکمتوں کی طرف لوٹنا ہو گا اور حکمتوں کا منبع مولائے کائنات، امیر السالکین، امیر الصادقین، امیر الصالحین،  قاتل المشرکین، یعسوب الدین، امام المسلمینؑ  حضرت المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبات اور فرمودات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیر المونین ؑ بو تراب ہیں۔ بوتراب کا عام معنی مٹی کا مالک یا مٹی کا باپ کیا جاتا ہے لیکن  حکیمِ امت نے بو تراب کا بہت گہرا معنی بیان کیا ہے۔ بُوتراب یعنی و ہ شخص جو اپنے جسم و نفس کو تسخیر کر چکا ہو۔ جو اپنے نفس کا غلام نہ ہو بلکہ نفس اس کا مطیع و فرمانبردار ہو، جس کی خواہشات اس کے ارادے  اور عقل کے اختیار میں ہوں۔ ہمارے تمام مسائل کا حل  عقل و شعور کی بیداری ہے۔ جب تک ہم جاہل رہیں گے، جب تک ہم حماقت میں مبتلا رہیں گے، جب تک ہم پابندِ رسم  و رواج  رہیں گے، جب تک ہماری عقلوں پر پردے رہیں گے، جب تک ہم دینِ الٰہی کو چھوڑ کر دینِ آبائی و رسوماتی کی پیروی کریں گے، جب تک ہم اندھی تقلید کریں گے، جب تک غلام و بے شرف رہیں گے ہم نجات نہیں پا سکتے۔

علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ نجات کا واحد راستہ، واحد سبیل اور واحد ذریعہ  بیداری ہے اور بیداری کا نصاب ہے۔ انہوں نے یوم تاسیس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حوزہ علمیہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ، لاہور پاکستان کے معتبر تعلیمی اداروں میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے، جو سن 2010ء میں اپنی تاسیس کے بعد سے خدا کے لطف سے پاکستان میں قابلِ دید خدمات پیش کر رہا ہے۔ جامعہ میں قومی، ملی و عصری تقاضوں کو مدنظر رکھ کر جدید بنیادوں پر استوار نصاب ترتیب دیا گیا ہے جس میں تمام علوم انسانی یا سوشل سائنسز کو شامل کیا گیا ہے، وسعت نظام، کثرت طلاب، مثالی نظم و انضباط، جدت اسلوب، جامعیت نظام تعلیم اور ملحقہ مراکز میں روز افزوں اضافہ جیسی خصوصیات کے حامل ہونے کی بنیاد پر، وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت حکومت پاکستان کی جانب سے جامعہ عروة الوثقی لاہور اور اس سے ملحقہ مدارس کیلئے مستقل تعلیمی امتحانی بورڈ یا بنام مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمة کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جو اپنے جامع ترین تعلیمی و تربیتی اہداف لے کر اپنی منزل کی جانب تیزی سے گامزن ہے۔
خبر کا کوڈ : 918874
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش