0
Tuesday 16 Mar 2021 18:20
مسئلۂ فلسطین کا فوری حل خطے کی اصلی ترین ترجیح قرار پانا چاہئے

ایران کیخلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ کی سیاست" کے حوالے سے بائیڈن و ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں، جواد ظریف

ایران خطے کے امن و استحکام اور فلاح و بہبود کیلئے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے
ایران کیخلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ کی سیاست" کے حوالے سے بائیڈن و ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں، جواد ظریف
اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سائبر کانفرنس "تہران ڈائیلاگ فورم 2021ء" کی دوسری نشست سے خطاب کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وقت ہمارے خطے کی صورتحال اچھی نہیں کیونکہ ایک طرف سے خونریزی، خانہ جنگی، عدم استحکام اور تشدد جبکہ دوسری جانب سے اقتصادی، اجتماعی و انسانی پیشرفت سے محرومی نے صورتحال کو خراب کر رکھا ہے درحالیکہ ان سب مشکلات کو جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان کی اصلی وجوہات کی جانب توجہ مبذول نہیں کی جا رہی۔ محمد جواد ظریف نے خطے میں موجود مشکلات کی اصلی وجہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سب مشکلات کی بنیادی وجوہات بین الاقوامی مداخلت، ماحول کو حساس بنانا اور اپنے مفادات کو مقدم جاننا ہے جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خطے کے مسائل کی اہم ترین وجہ ہمارے خطے میں انتہائی طولانی اور خطرناک بین الاقوامی مداخلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کو گذشتہ 5 پانچ دہائیوں سے بین الاقوامی کھلاڑیوں نے اپنی جیوپولیٹیکل سازشوں کا نشانہ بنا رکھا ہے جبکہ امریکہ نے خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کو دنیا کے کسی بھی دوسرے مقام سے بڑھ کر بڑھاوا دیا ہے درحالیکہ خود انہی (امریکیوں) کی جانب سے شائع کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی جانب سے گذشتہ 2 عشروں میں ہمارے خطے میں لامتناہی جنگوں اور فوجی مداخلت میں 7 ٹرلین ڈالر خرچ کئے جا چکے ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ نے موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران مخالف پالیسی پر عملدرآمد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امریکی مداخلت صرف اور صرف فوجی میدان میں ہی محدود نہیں بلکہ ایرانی عوام کے خلاف امریکہ کی جانب سے مسلط کئے گئے اقتصادی اقدامات، خصوصا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران؛ کسی طور اقتصادی جنگ سے کم نہیں۔ محمد جواد ظریف نے کہا کہ اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی سیاست لاگو کرنے میں امریکہ کے سابق و موجودہ صدر کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ نسبتا فوجی برتی رکھنے کے باعث امریکہ ہر میدان پر تسلط حاصل کرنے کے لئے اسے حساس بنا رہا ہے جبکہ ہمارا خطہ اس مسئلے کی ایک روشن مثال بن چکا ہے جہاں امریکہ نے اپنی مداخلتوں کے ذریعے پورے کے پورے خطے خصوصا ایران کے مسائل کو انتہائی حساس بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ نہ صرف خطے کے ہر ایک مسئلے کو بلکہ پورے کے پورے خطے کو ہی فوجی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے اور اسی طرح خطے میں موجود آپسی تعلقات نے بھی فوجی رنگ اپنا لیا ہے کیونکہ یہ صورتحال امریکہ اور اس کے مغربی شراکتداروں کے مفاد میں ہے اور انہی حالات کے ذریعے وہ اپنا اسلحہ بیچ رہے ہیں۔

محمد جواد ظریف نے خطے میں امریکی و یورپی اسلحہ کی خریداری کی دوڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خلیج فارس میں ہمارے 6 جنوبی ہمسایہ ممالک، جن کی آبادی 4 کروڑ سے بھی کم ہے، نے پوری دنیا میں بیچے جانے والے اسلحے کا ایک چوتھائی خرید رکھا ہے جبکہ ان میں سے ایک ملک نے گذشتہ سال میں ہی صرف 60 ارب ڈالر جبکہ ایک ایسے دوسرے ملک نے جس کی کل آبادی صرف 15 لاکھ ہے، گذشتہ سال اسلحے کی خریداری پر 22 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ خطے کو حساس بنانے کے لئے مصنوعی خطرات و مصنوعی دشمن اور اسی طرح مصنوعی دوست اور سطحی اتحاد تشکیل دیئے جاتے ہیں جبکہ صورتحال کو حساس بنا دیئے جانے کے باعث خطے کو درپیش اصلی خطرات آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے خطے کی اصلی ترجیحات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خطے میں مصنوعی خطرات کو پروان چڑھانے کا اصلی مقصد "مسئلہ فلسطین" کو دیوار سے لگانا اور اگر ممکن ہو تو اسے مکمل طور پر بھلا دینا ہے جبکہ "فلسطین کے ناگفتہ بہ مسائل" کا فوری حل خطے کی اصلی ترین ترجیح قرار پانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلۂ فلسطین ایک عالمی مسئلہ ہے جبکہ فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کی بربریت کی موجودگی میں خطے سمیت پوری دنیا میں کسی قسم کا امن و امان و استحکام بحال نہیں ہو سکتا جبکہ کسی بھی فریق کی جانب سے حتی ایک لمحے کے لئے بھی اس انسانی المیے کو بھلایا نہیں جانا چاہئے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے "گفتگو" کو خطے میں موجود مسائل کا اصلی حل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم، اس خطے کے باسی؛ حتمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ پرامن زندگی گزار سکتے اور اپنے اختلافات کو عقل کی روشنی میں بالکل ویسے ہی حل کر سکتے ہیں جیسا کہ ہم صدیوں سے کرتے چلے آ ئے ہیں البتہ اس کی بنیاد "گفتگو و سفارتکاری" ہے۔ محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایران اپنے ہمسایوں کے ساتھ وسیع گفتگو میں انتہائی دلچسپی رکھتا ہے جبکہ ہمیں خطے کی تقدیر کو بدلنے کے لئے کسی بیرونی مداخلت کی کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے خطے کے ممالک کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس خطرناک نظریئے کی بنیاد پر کہ "ایران خطے کے لئے ایک خطرہ ہے" کسی قسم کے منصوبے میں شرکت نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ صدام حسین نے پہلی مرتبہ خطے کے لئے ایران کے "خطرہ" ہونے کی بات کی تھی لیکن پھر جلد ہی "اسی" نعرے کے ساتھ اپنے مالی سہولتکاروں کے خلاف اقدام اٹھا لیا تھا تاہم اِس وقت بنجمن نیتن یاہو نے صدام کے نقش قدم پر چلنا شروع کر رکھا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان دو مجرموں نے کسی بھی دوسرے مجرم کی نسبت "سب سے زیادہ" عربوں کو قتل کیا ہے جبکہ ایران کو اپنے ہمسایوں کے مال و دولت کی کوئی ضرورت نہیں تاہم وہ اپنی ہمسائیگی میں صرف اور صرف امن و امان چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 3 ہزار سال سے زائد کے عرصے کے مانند؛ ایران ہمیشہ ہمیشہ امن و امان کا داعی اور خطے کا اہم کھلاڑی باقی رہے گا جبکہ وہ خطے کے امن و استحکام اور فلاح و بہبود کے لئے ہر قدم اٹھانے کو تیار ہے۔
خبر کا کوڈ : 921872
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش