1
1
Saturday 10 Apr 2021 20:16

بدلتے عالمی حالات اور ہماری خارجہ پالیسی

بدلتے عالمی حالات اور ہماری خارجہ پالیسی
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

امریکہ اور چین کے وزرائے خارجہ کی امریکی ریاست الاسکا میں ہونیوالی اہم ملاقات ناخوشگوار موڈ پر اختتام پذیر ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ نے چین پر قتل و غارت گری کا الزام عائد کیا جبکہ امریکی صدر جو بائیڈن کے قاتل کے نام سے مخاطب کرنے پر جواب میں چینی وزیراعظم نے واضح کیا کہ جو انہیں قاتل کہہ رہے ہیں وہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں۔ چینی وزیر خارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ قاتل چین نہیں بلکہ امریکہ ہے, جس نے افغانستان اور عراق پر قبضہ کیا۔ یہاں کے لوگوں کو قتل کیا۔ شام میں دہشتگردی امریکی سرپرستی میں پھیلائی گئی اور یمن میں سعودی عرب امریکی سرپرستی میں لاکھوں انسانوں کی جانیں لے چکا ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ یونی پولر طاقت ہے, لیکن اب یہ دعویٰ بھول جائیں کیونکہ چین اور روس بھی عالمی طاقت ہیں۔ اس تلخی کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے جاپان، جنوبی کوریا اور یورپی ممالک سے مذاکرات کئے, جبکہ چینی وزیر خارجہ نے پہلا دورہ سعودی عرب، پھر اسرائیل، ایران اور دیگر ممالک کے دورے کئے اور سرمایہ کاری کے معاہدے کئے۔

اب جبکہ عالمی سطح پر تبدیلی کی فضا سازگار ہو رہی ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ یا حکومت اپنے ملکی مفادات کے بارے میں کچھ سوچ رہی ہے یا کوئی اقدامات کر رہی ہے.؟ دنیا یونی پولر سے نکل کر ملٹی پولرز میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ان حالات میں چین کا پاکستان میں کردار بہت اہم ہے۔ پاکستانی حکومت کی خارجہ پالیسی دو کشتیوں میں پاوں رکھ کر نہیں چلائی جا سکتی۔ ہمیں امریکی غلامی کیخلاف بتدریج ہی سہی بغاوت کرنی چاہیUے۔ پاکستان کے ہمسائے میں حکومتوں کے مختلف ماڈل رائج ہیں۔ ہمارے ایک طرف ہندوستان ہے, جس کا ماڈل ہم نہیں اپنا سکتے۔ یہاں کی متعصب ہندو حکومت اقلیتوں کیساتھ جو غیر انسانی سلوک کر رہی ہے, آج کی مہذب دنیا میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مظلوم کشمیریوں کو تقریباً دو سال سے لاک ڈاون میں رکھا گیا ہے۔ یہ ماڈل بھی ہمیں قابل قبول نہیں۔ اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، تبت اور بنگلہ دیش میں سے کسی کیساتھ بھارت کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ نریندر مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو یہاں کے عوام نے شدید احتجاج کرکے بھارت کی متعصبانہ پالیسیوں کیخلاف اپنی بھرپور نفرت کا اظہار کیا۔

دوسرا ماڈل چین کا ہے، جو ہمارے حکمرانوں, بیوروکریسی اور سیاستدانوں کیلئے اختیار کرنا ناممکن ہے۔ چین میں جمہوریت نہیں۔ ہمارا ملک جمہوریت سے بنا اور اسی حوالے سے آج تک زندہ ہے، بلکہ میں یوں کہوں کہ جمہوریت کیخلاف آمریت نے جو بھی اقدامات کئے, جمہوریت سسکتی ہی رہی ہے۔ کبھی تو فوجی آمریت سے بدتر سول آمریت بھی رہی۔ مگر سیاسی کارکن اور جماعتیں جدوجہد کرکے پھر جمہوریت ہی کو چاہتے ہیں۔ تیسرا ماڈل افغانستان ہے, افغانستان میں جس طرح کی بین الاقوامی مداخلت ہے, پاکستانی عوام برداشت نہیں کرسکتے۔ لاکھوں انسانوں نے جانیں قربان کیں مگر افغانستان پُرامن ملک نہیں بن سکا۔ یہاں بڑی طاقتیں اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں، جس کیلئے انہوں نے مختلف گروہوں پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اندرونی انتشار کے شکار افغانستان میں طالبان ایک طرف ہیں، دوسری طرف افغان حکومت، طالبان حکومت میں تو نہیں مگر اتنے طاقتور ضرور ہیں کہ اپنی مرضی کیخلاف بننے والی کسی بھی حکومت کو چلنے نہیں دیتے اور نہ آئندہ ایسا کریں گے۔

ان کا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی افواج کو افغانستان سے نکالا جائے۔ دوسری طرف بین الاقوامی قوتیں بھی افغانستان کو نہیں چھوڑ سکتیں۔ اگر وہ چھوڑتے ہیں تو طالبان ایک بار پھر حکومت کو چلتا کریں گے۔ پھر خدشہ یہ بھی ہے کہ طالبان گروہوں کے درمیان لڑائی شروع ہو جائے اور غریب افغان عوام ایک بار پھر بین الاقوامی دہشتگردی کے تسلط میں آجائیں۔ ہمارا چوتھا بارڈر ایران سے ملتا ہے۔ ایران نے چار دہائیاں پہلے عملی طور پر بادشاہت ختم کرکے آیت اللہ روح اللہ خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب سے عوامی حکومت تشکیل دی۔ لیکن اس کی مضبوطی کی وجہ ایرانی النسل قوم کا مضبوط کردار ہے۔ جو باہمی اختلافات کے باوجود ایران کے تحفظ کیلئے ایک ہو جاتی ہے۔ بین الاقوامی سازشوں کا مقابلہ جس طرح ایرانیوں نے کیا ہے، شاید دنیا بھر میں اس کی کوئی اور مثال نہ ملے۔ ایرانی حکومت ان دنوں جن حالات سے گزر رہی ہے، کوئی مذاق نہیں۔ عزم صمیم، شجاعت، ہمت اور تدبر کی روشن مثال ہے۔

بین الاقوامی بندشیں اور دباو کے باوجود ایران نے چین کیساتھ معاہدہ کرکے دنیا کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ 4 سو بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ایران آرہی ہے۔ اس میں یہ نہیں کہ چین کو مارکیٹ مل رہی بلکہ ایران کو ٹیکنالوجی مل رہی ہے۔ جس سے ایران مزید مضبوط ہوگا۔ اگرچہ یہ بڑی جرات کی بات ہے کہ جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ امریکہ ایران سے دوبارہ مذاکرات کرے گا۔ ایران نے بھی مثبت جواب دیا مگر اقتصادی اور عسکری پابندیاں اٹھانے کی شرط عائد کر دی کہ ہر طرح کی عالمی پابندیاں مکمل طور پر اٹھائی جائیں۔ پھر مذاکرات ہوں گے۔ ہم ایک آزاد مملکت ہیں اور خود مختاری کا حق رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی مستضعفین کی ہر جگہ پر مدد بھی کریں گے۔ حالیہ پیشرفت کے باوجود اب تک دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈ لاک موجود ہے۔ پابندیوں کے باوجود ایران، امریکہ اور سامراجی قوتوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور دن بدن مضبوط ہو رہا ہے۔ ان چار حکومتی ماڈلوں میں سے سوائے ایران کے کوئی ایسا نہیں جسے اپنا کر پاکستان ترقی کرسکے۔ ہمیں کھل کر ایران کا ساتھ دینا چاہیئے اور ایران کیساتھ وہ منصوبے جو پاکستان کی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں، ان کو عملی جامہ پہنانا چاہیئے۔

ایران گیس پائپ لائن اور ٹرین کے منصوبے پاکستان کی ترقی کیلئے ناگزیر ہیں۔ ایران کی طرف سے کوئٹہ زاہدان اور استنبول تک ٹرین کی پیش کش موجود ہے۔ اس حوالے سے چند سال پہلے میں ذاتی طور پر ایران کے وزیر ریلوے سے مل چکا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کوئٹہ سے زاہدان تک ہائی سپیڈ ٹرین ٹریک مکمل کرلے تو زاہدان سے آگے بندر عباس، عراق، شام اور ترکی تک ایران یہ کام مکمل کرسکتا ہے، کیونکہ کوئٹہ سے زاہدان کا اس وقت موجود ریلوے ٹریک بہت چھوٹا ہے، جس پر ہائی سپیڈ ٹرین نہیں چل سکتی۔ اگر ایسا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد سے دہلی استنبول تک ٹرین کا راستہ بنے گا اور انڈیا سے ایران ترکی تک راہداری کیلئے پاکستان کو بہت محصولات ملیں گے، ملک ترقی کرے گا، معیشت مضبوط ہوگی۔ ان ماڈلز کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں افغانستان میں بدامنی، چین میں ون پارٹی حکومت چاہیئے اور نہ ہی بھارت کی ظالمانہ جمہوریت، ہمیں خودداری اور خود انحصاری کا ایرانی ماڈل قبول کرنا چاہیئے۔ پاکستان کھلا ملک ہے، اس میں اقلیتوں کا تحفظ ہے۔ ہم ہر اس قوت کیساتھ کھڑے ہوں، جو ہمارے ملک کیلئے ہمارے گلے ملے۔
خبر کا کوڈ : 926432
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Sitara Shah Naqvi
Pakistan
ماشاء اللہ زبردست تحریر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران امت مسلمہ کے لئے مینارہ نور ہے۔ اگر عرب ممالک بھی ایران کی پیروی کریں تو مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال ہوسکتی ہے۔ مگر اس کے لئے جرات چاہیئے۔ دجالی قوتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہمت عیاش عرب بادشاہوں میں کہاں۔؟
ایران گیس پائپ لائن پر آخری کام آصف علی زرداری کے دور میں ہوا تھا۔ مگر اس کے بعد مسلم لیگ نواز اور عمران خان کی حکومت نے امریکی مخالفت کی جرات نہیں کی۔
ہماری پیشکش