0
Monday 17 May 2021 23:43

فلسطینی راکٹوں نے اسرائیلی ہوائی دفاع کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، انگریزی میڈیا

فلسطینی راکٹوں نے اسرائیلی ہوائی دفاع کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، انگریزی میڈیا
اسلام ٹائمز۔ ایک برطانوی اخبار نے فلسطینی مزاحمتی محاذ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف ہونے والی جوابی کارروائیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ راکٹ ٹیکنالوجی میں غزہ کی پیشرفت اسرائیلی ہوائی دفاع کے لئے ایک انتہائی مشکل چیلنج بن گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق بروک یونیورسٹی کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر و عسکری تجزیہ نگار مائیکل آرمسٹرانگ نے انگریزی مجلے کانورزیشن میں چھپنے والے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ میں، جو قبل ازیں اسرائیلی دفاع پر کام کر چکا ہوں، شروع میں سوچتا تھا کہ آجکل کی فلسطینی لڑائی سال 2014ء میں پیش آنے والے حوادث جیسی ہی ہے تاہم فلسطینی (مزاحمتی) گروہوں نے اپنی راکٹ ٹیکنالوجی کو بہت زیادہ پیشرفتہ بنا لیا ہے جبکہ یہ صورتحال سال 2008ء کی یاد دلاتی ہے جب اسرائیل، فلسطینی راکٹوں کے مقابلے میں زیادہ کمزور تھا درحالیکہ اس نے غزہ کے خلاف 3 ہفتوں پر محیط جنگ بھی چھیڑ رکھی تھی۔ برطانوی مصنف کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران آنے والی واضح ترین تبدیلی (فلسطینی مزاحمتی محاذ کی جانب سے) فائر کئے جانے والے راکٹوں کی تعداد میں کئی گنا کا اضافہ ہے۔  اس نے لکھا کہ اس مرتبہ لڑائی کے پہلے 24 گھنٹوں کے دوران غزہ کے (مزاحمتی) گروہوں کی جانب سے 470 راکٹ فائر کئے گئے جس کے بعد پھر ہر روز اوسطا 408 راکٹ فائر ہوتے رہے ہیں جبکہ ان اعداد و شمار کے ذریعے سال 2012ء میں روزانہ 316 اور سال 2014ء میں روزانہ 192 راکٹ فائر کئے جانے کا ریکارڈ بھی بآسانی ٹوٹ گیا ہے۔

مائیکل آرمسٹرانگ نے اپنے مقالے میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ فلسطینی مزاحمتی محاذ کی جانب سے اب کی بار پہلے سے زیادہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہ راکٹ فائر کئے جا رہے ہیں، لکھا کہ اب وہ پورے دن میں چند ایک چھوٹے حملوں کے بجائے، صرف 5 منٹ میں ہی 137 راکٹ فائر کر دیتے ہیں جبکہ اب کی بار مزاحمتی محاذ کے راکٹوں کی درستگی بھی پہلے سے کئی گنا بہتر ہوئی ہے کیونکہ اب فائر شدہ راکٹوں میں سے 50 فیصد سے زائد مقبوضہ سرزمینوں میں واقع (غیر قانونی) یہودی بستیوں کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ ان اعداد و شمار میں سال 2012ء کی نسبت 22 فیصد جبکہ سال 2014ء کی نسبت 18 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے درحالیکہ (غیر قانونی) یہودی بستیوں میں واقع کھلی جگہوں پر گرنے والے راکٹوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ برطانوی عسکری تجزیہ نگار نے لکھا کہ مزید برآں یہ کہ مزاحمتی گروہوں کی جانب سے اب فائر کئے جانے والے میزائل پہلے کی نسبت کئی گنا بڑے اور بہت زیادہ رینج کے حامل ہیں جبکہ پرانی لڑائیوں میں زیادہ تر مقبوضہ فلسطین کے جنوبی شہر ہی ان راکٹوں کا نشانہ بنتے تھے جبکہ اس مرتبہ مقبوضہ فلسطین کے درمیان میں واقع تل ابیب کو بھی بآسانی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ قبل ازیں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی فلسطینی مزاحمتی محاذ کے راکٹ حملوں کے بارے اپنی رپورٹ میں حماس کی راکٹ پاور میں سال 2014ء کی نسبت آنے والی پیشرفت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس وقت حماس 100 میل رینج کے حامل راکٹوں کو غزہ کے اندر ہی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کے باعث اسرائیل کا ایک بڑا حصہ حماس کے مقامی سطح پر تیار کردہ راکٹوں کی زد میں آ چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 933076
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش