0
Wednesday 26 May 2021 12:59

یہ مزاحمتی محاذ کے میزائل ہی ہیں جنہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو خطے میں لا کھینچا ہے، موسی ابومرزوق

یہ مزاحمتی محاذ کے میزائل ہی ہیں جنہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو خطے میں لا کھینچا ہے، موسی ابومرزوق
اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے نائب سربراہ موسی ابومرزوق نے میڈیا کے ساتھ گفتگو میں امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے تل ابیب کے اولین دورے پر اظہار خیال کیا ہے۔ عرب ای مجلے الجزیرہ مباشر کے ساتھ گفتگو میں موسی ابومرزوق نے تاکید کی ہے کہ فلسطینیوں اور صیہونیوں کے جھگڑے کا سیاسی حل امریکہ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں جبکہ وہ چیز جس نے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن کو خطے میں آنے پر مجبور کیا ہے تل ابیب پر برسنے والے فلسطینی مزاحمتی محاذ کے میزائل ہیں۔ حماس کے نائب سربراہ نے کہا کہ اس دورے کے ذریعے امریکی حکومت کا مقصد فلسطینی مزاحمتی محاذ کی کامیابیوں کو ضائع اور اس سیاسی راہ حل کو دوبارہ زندہ کرنا ہے جو کئی سال قبل سے دم توڑ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمتی محاذ کے میزائلوں نے متعدد میدانوں کے دفاعی توازن بگاڑ دیئے ہیں جبکہ فلسطینی قوم موجودہ صورتحال سے تھک کر اب اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ مزاحمت اور وسیع انتفاضے کے بغير کچھ بدلنے والا نہیں۔ حماس کے مرکزی رہنما نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ بذات خود مشکلات کا حصہ ہے اور نہ صرف یہ کہ فلسطینی قوم خود امریکی اسلحے سے ماری جا رہی ہے بلکہ غزہ میں ہونے والی تباہی بھی امریکی جنگی طیاروں اور میزائلوں کے ذریعے ہی وقوع پذیر ہوئی یے درحالیکہ مشرق وسطی میں امریکہ صرف اور صرف اسرائیلی مفاد میں ہی عمل کرتا ہے۔

موسی ابومرزوق کا کہنا تھا کہ امریکہ گذشتہ صدی کے نویں عشرے (سال 1990ء) سے حماس کی تعقیب اور اس کے سفارتی و مالی اقدامات کو روکنے کی کوشش میں ہے جبکہ امریکہ کوچاہیے کہ وہ موجودہ صورتحال اور مزاحمتی محاذ کی بالادستی کو قبول کر لے۔ حماس کے مرکزی رہنما نے نئی امریکی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ فلسطین کے قومی مفاد کی فکر میں ہیں تو فلسطینی خواتین و بچوں کو نشانہ بنانے والے میزائلوں کو رکوا دیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہ گذشتہ 27 سال سے فلسطینی حکومت و تل ابیب کے درمیان امریکہ ہی واحد ثالث ہے جبکہ اس عرصے میں "قدس شریف میں صیہونی سفارتخانے کی منتقلی" اور اس شہر کے "اسرائیلی دارالحکومت" کے طور پر تسلیم کر لئے جانے کے علاوہ کوئی دوسرا نتیجہ حاصل نہیں ہوا؛ فلسطینی صدر محمود عباس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں صدر عباس کو کہوں گا کہ آپ نے ان عشروں کے دوران اس سیاسی حل سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟! انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام اب ان ہتھکنڈوں سے تھک چکے ہیں جبکہ امریکی صدر جوبائیڈن نے صرف تب ہی آپ کو فون کیا تھا جب تل ابیب پر مزاحمتی محاذ کے راکٹ برس رہے تھے۔

حماس کے مرکزی رہنما نے تاکید کی کہ آج منظر بدل چکا ہے جبکہ صیہونی دشمن صرف اور صرف جنگ کی زبان سمجھتا ہے درحالیکہ فلسطینی عوام بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل مغربی کنارے سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور یہی وجہ ہے کہ وہ ہر روز دسیوں دونوم (اراضی کی پیمائش کا عبری پیمانہ) فلسطینی اراضی کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کر رہا ہے۔ موسی ابومرزوق نے زور دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی قوم نے آج تک یوں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند قیام نہ کیا تھا درحالیکہ آج ہم ایک دھڑکتے دل میں بدل چکے ہیں تاہم بعض فریق چاہتے ہیں کہ فلسطینی حکومت کو اسرائیلی آلہ کار میں بدل کر اس کے ذریعے فلسطینی مزاحمتی محاذ کو اپنے نشانے پر لے آئیں۔

حماس کے نائب سربراہ نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکہ و اسرائیل غزہ میں انسانی امداد کے داخل ہونے کے طریقے کا تعین کرنے کا حق نہیں رکھتے، کہا کہ ہم ہر اس فريق کا خير مقدم کرتے ہیں جو غزہ کی تعمیر نو میں دلچسپی رکھتا ہو۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آخر میں فلسطینی تعمیر نو کے حوالے سے کہا کہ مصر کیجانب سے دعوت موصول ہو چکی ہے اور یہ بھی طے پا گیا ہے کہ آئندہ ہفتے غزہ کی تعمیر نو کا جائزہ لینے کے لئے اسمعیل ہنیہ کی سربراہی میں ایک وفد قاہرہ کا دورہ کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 934587
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش