QR CodeQR Code

پاکستان، عالمی اسٹیبلشمنٹ کا نشانہ

9 Jun 2021 10:30

اسلام ٹائمز: آج ہماری قوم سے اسی غیرت و حمیت کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ محرم پر پوری قوم نے دیکھا، دشمن نے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی، لیکن علمائے کرام کی بیدار مغری نے کام دکھایا اور بروقت اس سازش کا ادراک کرکے ’’مفتیوں‘‘ کے عزائم خاک میں ملا دیئے گئے۔ دشمن کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک پلان ہے، ایک ناکام ہوتا ہے تو دوسرا تیار ہوتا ہے، اس لئے قوم کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔


تحریر:تصور حسین شہزاد

اسلام دشمن قوتیں مسلسل اُمت مسلمہ کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ افغانستان، اردن، مصر، تیونس، یمن، عراق اور شام کے بعد ان کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ پاکستان کیخلاف ایک منظم انداز میں گھناونا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل میں ہمارے اپنے ہی مُہرے بنے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کیلئے پہلا ہدف فوج کو کمزور کرنا ہے، جس پر یکسوئی کیساتھ عملدرآمد ہو رہا ہے۔ فوج کیخلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے اور اس ایجنڈے پر گذشتہ 20 برسوں سے عمل جاری ہے۔ اس میں ہماری ماضی کی حکومتیں بھی استعمال ہوئیں اور تاحال دونوں بڑی جماعتوں کی قیادتوں کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ زرداری صاحب کی تقریریں سبھی کو یاد ہیں، جو مخاطب کرکے کہتے تھے، تم نے مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہو جانا ہے اور ہم نے یہیں رہنا ہے۔ اسی طرح نواز شریف سے بھی کھل کر پاک فوج کیخلاف بیانات دلوائے گئے۔

دنیا کا واحد ملک پاکستان ہے، جہاں حکومت خود اپنی فوج کو ہدفِ تنقید بناتی ہے۔ فوج کیخلاف جہاں سیاستدانوں کو اہداف دیئے گئے، وہاں ٹی وی چینلز کے اینکروں اور اخبارات کے کالم نگاروں کو بھی تیار کیا گیا اور ایک مخصوص گروہ اس مقصد کیلئے ہائر کیا گیا۔ اس گروہ میں مرد اینکرز کیساتھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اینکروں کا یہ ریوڑ فوج کیخلاف بیان بازی اور زمینہ سازی کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا۔ فوج کیساتھ ساتھ تعلیمی نظام پر بھی حملہ کیا گیا۔ اس مقصد کیلئے عالمی اسٹیبلشمنٹ نے جہاں این جی اوز کو استعمال کیا، وہاں انہوں نے اپنے پرانے پتے بھی جھاڑ پونچھ کر ظاہر کر دیئے۔ اس مقصد کیلئے کالعدم سپاہ صحابہ کی قیادت کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا گیا۔ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے پنجاب اسمبلی سے ابتداء کی گئی۔ تحفظ بنیاد اسلام بل پیش کروایا گیا۔ شدید عوامی ردعمل آنے پر یہ متنازع بل تو اسمبلی سے منظور نہ ہوسکا، البتہ دشمنوں نے پہلا پلان فلاپ ہونے پر دوسرا منصوبہ پیش کر دیا۔

دوسرے منصوبے کے تحت اسی متنازع ’’تحفظ بنیاد اسلام بل‘‘ کو یکساں قومی تعلیمی نصاب کا عنوان دے کر نافذ کر دیا گیا۔ یہ نصاب 2017ء میں تیار کیا گیا۔ نصاب کا مقصد ریاست اپنے فارمل ایجوکیشن سسٹم کیلئے طے کرتی ہے کہ کس طرح کے موضوعات ہوں، ان سے حاصل کیا کرنا ہے۔ ریاست قوم کو جس سطح پر دیکھنا چاہتی ہے، اسی طرز کا نصاب مرتب کیا جاتا ہے اور پھر یہ نصاب تعلیمی اداروں میں نافذ کر دیا جاتا ہے۔ نصاب بنانے والوں نے بہت بڑی ناانصافی کی ہے۔ نئے نصاب کے اس منصوبے کا مقصد غیرت مند قوم کو ’’برائلر قوم‘‘ بنانا ہے۔ نیا نصاب کہیں اور سے تیار ہو کر آیا ہے، نصاب کمیٹی کے ارکان تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں تیار نصاب دیا گیا اور کہا گیا کہ آپ نے بس اسے پاس کر دینا ہے۔ نصاب سے ہماری معاشرتی اور دینی اقدار کو نکال دیا گیا ہے۔ غیرت نکال دی گئی۔ غیرت ہی بنیادی قدر ہے، جو اہداف کے حصول میں معاون ہوتی ہے، نئے نصاب سے غیرت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

نصاب میں بچوں کو غیرت جیسا سبق نہیں پڑھایا جائے گا۔ شجاعت ہمارے معاشرے کی بہت بڑی قدر ہے، ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کا بچہ نڈر ہو، شجاع ہو، بہادر ہو، شجاعت معاشروں کے دفاع کی ضمانت ہوتی ہے، مگر اس شجاعت کو بھی نصاب سے دیس نکالا دے دیا گیا ہے۔ حریت ایک ایسا بنیادی اصول ہے، جس کی بنیاد پر ہم مظلوموں کا مقدمہ لڑتے تھے، مگر اس نئے نصاب سے اس حریت کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ ہم اب کشمیر اور فلسطین کے مظلوموں کیلئے آواز نہیں اٹھا سکیں گے۔ انسانیت پسندی کا تصور بھی نئے نصاب میں شامل نہیں کیا گیا، حق گوئی اور بے باکی کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس نئے نصاب میں ہماری قومی و دینی اقدار کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

اب جو نیا نصاب تیار کیا گیا ہے، اس میں صرف وہ نظریات شامل ہیں، جس سے ایک غلام قوم تیار ہوگی۔ ایک ’’برائلر قوم‘‘ تیار ہوگی۔ ہم اپنے بچوں کو سب سے پہلا سبق ایمانداری کا دیتے ہیں، مگر نصاب سے ایمانداری کو بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ نئے نصاب میں انصاف بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اس نصاب سے اہلبیت اطہارؑ کو بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ پہلی سے پانچویں جماعت تک خاندان رسولؑ کے کسی بھی فرد کا کوئی ذکر شامل نہیں، بلکہ جن مضامین میں اہلبیتؑ کا ذکر آتا تھا، انہیں بھی نکال دیا گیا ہے۔ نصاب سے واقعہ کربلا کو بھی نکال دیا گیا ہے۔ جس واقعہ نے انسانیت اور اسلام کا دفاع کیا ہے، اس واقعہ کو نکال دیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 فیصد بچے بوجہ سکول چھوڑ جاتے ہیں، پہلی سے پانچویں تک اہلبیت کے حوالے سے کوئی مضمون شامل نہیں کیا گیا، یعنی فارمل ایجوکیشن میں اہلبیتؑ کے نمونہ عمل سے نوجوان بے بہرہ رہیں گے۔

پاکستان کے وجود کی بنیاد اسلام اور دین ہے۔ جس بنیاد پر مسلمانان برصغیر نے قیام کیا تھا، وہ اسلام تھا، وہ دو قومی نظریہ تھا۔ کلمہ طیبہ تھا، دین کی بنیاد پر ہم نے ریاست جدا کی تھی، پورے نصاب میں دو قومی نظریہ کا ذکر تک نہیں۔ نئے نصاب میں لادینیت کی بُو آرہی ہے۔ دین کو صرف چند احکامات پر محدود کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ اس نصاب کو پڑھ کر جو قوم تیار ہوگی، جو نسل آگے آئے گی، وہ ایک غلام نسل ہوگی، وہ ایک غلام قوم ہوگی، وہ ایک برائلر نسل ہوگی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری دینی اقدار کی محافظ دینی سیاسی جماعتیں بھی اس پر خاموش ہیں، اس بہت بڑی سازش پر چشم پوشی کر رہی ہیں۔ پاکستان کو نئے نئے مسائل میں الجھایا جا رہا ہے۔

بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات کی آڑ میں ایسے مضامین بچوں کو پڑھانے کی سازش کی گئی ہے کہ وہ سیکس کی تعلیم سے آگاہ ہوں گے تو ایسے واقعات سے بچ جائیں گے، جبکہ اسلامی اقدار بچوں کو ایسی تعلیم دینے سے منع کرتی ہیں، یورپ اور اسلامی ممالک کا تقابل کرلیں تو وہ یورپی ممالک جو کم سن بچوں کو سیکس کی تعلیم دیتے ہیں، وہاں بچوں کیساتھ زیادتی کی شرح، مسلم ممالک میں زیادتی کے واقعات کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ پھر اس کا کیا مقصد ہے؟؟ یقیناً ایسے مضامین پڑھانے کا مقصد بچوں کا تحفظ نہیں بلکہ انہیں بے راہ روی کا شکار کرنا ہے۔ اگر حالیہ نصاب نافذ ہو جاتا ہے جو کہ ہوچکا ہے، تو اس کے 10 سے 15 سال بعد اس کے نتائج آپ کے سامنے ہوں گے، ہماری قوم میں غیرت و حمیت ختم ہوچکی ہوگی، ہمیں دشمن جس طرف چاہیں گے ہانک کر لے جائیں گے، برائلر مرغی کے پنچرے کی طرح ایک ہاتھ پنچرے میں آئے گا، ایک مرغی کو دبوچے گا، باقی مرغیاں ایک منٹ کیلئے چیں چیں کریں گی اور خاموش ہو جائیں گی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا


مگر آج ہماری قوم سے یہی غیرت و حمیت کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ محرم پر پوری قوم نے دیکھا، دشمن نے فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔ لیکن علمائے کرام کی بیدار مغری نے کام دکھایا اور بروقت اس سازش کا ادراک کرکے ’’مفتیوں‘‘ کے عزائم خاک میں ملا دیئے گئے۔ دشمن کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک پلان ہے، ایک ناکام ہوتا ہے تو دوسرا تیار ہوتا ہے، اس لئے قوم کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، دشمن کی سازشوں کا ادراک کرنا ہوگا۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا، مرگ مفاجات

ضعیفی اور بے بسی جب تقدیر کا نام لیکر قوموں پر مُسلط کی جاتی ہے تو پھر ہر تدبیر ناکامی کو اپنا ہمنوا بنا لیتی ہے، لیکن سب سے بُری اور پست ترین ضعف و کمزوری وہ ہوتی ہے، جو نیت پر اپنا قبضہ جما لے۔ ہمیں اپنی نیت اور ارادے کو مضبوط بنانا ہوگا۔ میرے وطن کے بہت سے اہم ذمہ داروں کی نیت اور شعور پر لالچ اور خوف کے آسیب نے ٹڈی دل کی طرح حملہ کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی نیت اور شعور کو ’’برائے فروخت‘‘ کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کی خرید و فروخت کا بازاری دھندہ اتنے عروج پر آگیا ہے کہ عصمتِ ملت کی چادرِ غیرت بھی چوراہے میں ’’برائے فروخت‘‘ رکھ دی ہے، ایسے عالم میں ایمان کی پونجی کی حفاظت بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ حکمران عالم کفر کے مصنوعی رعب سے خوفزدہ نہ ہوں، بلکہ اپنی حمیت اور غیرت کی حفاظت کریں۔ آپ دنیا میں سرخرو ہو جائیں گے۔


خبر کا کوڈ: 937087

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/news/937087/پاکستان-عالمی-اسٹیبلشمنٹ-کا-نشانہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org