0
Friday 11 Jun 2021 22:13

بے تحاشا قرضے لے کر ریت کا گھر تعمیر کرنا کتنا مہنگا پڑا، بجٹ تقریر میں نون لیگ پر شدید تنقید

بے تحاشا قرضے لے کر ریت کا گھر تعمیر کرنا کتنا مہنگا پڑا، بجٹ تقریر میں نون لیگ پر شدید تنقید
اسلام ٹائمز۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ تقریر میں نون لیگ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حکومت کو شکستہ معیشت ورثے میں ملی، نون لیگ کی حکومت کی جانب سے بغیر سوچے سمجھے قرض لینے سے دیوالیہ پن کی صورتحال پیدا ہوئی۔ گزشتہ حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی نمائشی معاشی ترقی زیادہ شرح سود پر ملکی اور بیرونی ذرائع سے بہت زیادہ قرضے لینے کی وجہ سے تھی اور قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری ہمارے اوپر آگئی۔ ماضی میں شاید آنے والی حکومت کو ایسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ہمیں ورثے میں ملنے والی معیشت کے اہم خدوخال کا مختصر تذکرہ کرنا مناسب ہوگا۔ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر کی تاریخی طور پر بلند ترین سطح پر تھا۔ درآمدات تقریباً 56 ارب ڈالر کے ساتھ 25 ارب ڈالر کی برآمد ات سے 224 فیصد تھیں جبکہ 13-2012 میں درآمدات، برامدآت کے مقابلے میں 162 فیصد تھیں۔

وزیر خزانہ کا بجٹ تقریر میں کہنا تھا کہ زیادہ درآمدات کو over-valued روپے کے غیر حقیقی طور پر بلند Exchange rate کے ذریعے خصوصی رعایت حاصل تھی جبکہ ایکسچینج ریٹ تقریبا پانچ سال تک 104روپے فی ڈالر پر قائم رکھا گیا۔ اس عرصہ کے دوران برآمدات میں منفی 0.14 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ قرضے اور واجبات جو 30 جون 2013ء کو 16 ٹریلین روپے تھے، وہ 30 جون 2018ء تک تیزی سے بڑھتے ہوئے تقریبا 30 ٹریلین روپے ہو گئے جس سے قرضوں میں 14 ٹریلین روپے یا 88 فیصد کے اضافہ کی عکاسی ہو رہی ہے۔ شرح سود کو بھی مصنوعی طور پر کم رکھا گیا اور تمام قرضے سٹیٹ بنک سے لیے گئے نہ کہ کمرشل بنکوں سے جس کی وجہ سے مالیاتی اور قرضے کی منڈی میں شدید عدم توازن پیدا ہو گیا۔ سٹیٹ بنک سے قرضوں کا حجم 7 ٹریلین روپے کی خطرناک سطح پر پہنچ گیا۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تک جو کہ گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ تھا۔

شوکت ترین نے کہا کہ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر بڑی حد تک قرض لے کر بڑھائے گئے تھے جو جون 2012ء میں 6 ارب روپے تھے اور 2016ء کے آخر تک بڑھتے ہوئے تقریبا 20 ارب ڈالر ہو گئے مگر پھر مسلم لیگ نون کے آخری دو سالوں میں تیزی سے کم ہو کر جون 2018ء کے آخر تک 10 ارب ڈالر رہ گئے۔ اسی دور میں بیرونی قرضوں میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس تباہی کی داستان ہے جس کا ملبہ صاف کرنے اور تعمیر نو کی ذمہ داری ہمارے سر آن پڑی۔ اس پس منظر کے باﺅجود 5.5 فیصد کی معاشی شرح نمو کا ڈھول پیٹا گیا۔ ذرا سوچیے کہ بلاسوچے سمجھے قرضے لے کر، شرح مبادلہ کو over-valued رکھ کر شرح سود کم رکھ کر، اور سٹیٹ بنک سے بے تحاشا قرضے لے کر ریت کا گھر تعمیر کرنا کتنا مہنگا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب افعال ایسے ہیں جیسے کوئی اخراجات تو کرے مگر بل ادا نہ کرے۔ یہ سب ادائیگیاں ہمیں کرنی پڑیں، ورنہ ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔
خبر کا کوڈ : 937558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش