0
Friday 2 Jul 2021 05:20

چیف جسٹس صاحب انصاف اندھا ہونا چاہیئے پر اندھادھند نہیں، فاروق ستار

چیف جسٹس صاحب انصاف اندھا ہونا چاہیئے پر اندھادھند نہیں، فاروق ستار
اسلام ٹائمز۔ سربراہ تنظیم ایم کیو ایم پاکستان بحالی کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ الاٹیز تو لیز کی دستاویزات دیکھتے ہیں، سرکاری کاغذات کا ایک تقدس ہوتا ہے، ضابطوں کے مطابق حاصل دستاویزات کے مطابق تعمیرات کی گئی ہیں، سپریم کورٹ نے تمام پہلوؤں کا جائزہ نہیں لیا، نسلہ ٹاور کے معاملے سے پوری طرح واقف ہوں، انہیں کوئی غیرمعمولی مراعات نہیں دی گئی گجرنالے و اورنگی نالے پر بھی گیا، میئر سمیت ایم این اے، صوبائی وزیر سمیت بہت سے عہدوں پر رہا ہوں، اپنے تجزیے کی بنیاد پر اس عمارت کو درست سمجھتا ہوں۔ نسلہ ٹاور کے متاثرین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھا کہ 93ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں ایک جسٹس کی سفارشات پر اضافی زمین کو ریگولرائز کیا گیا، اسلام آباد کے ٹوئنز ٹاور اور بنی گالہ کی مثالیں موجود ہیں کہ انہیں ریگولرائز کیا گیا، یہاں آنے کا مقصد صرف نسلہ ٹاور کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کرنا ہے، کسی عمارت کو بنانا اور بسانا بہت مشکل ہے اور اسے اجاڑنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے، جو متاثرین ہیں انہوں نے جائز کام کرکے اپارٹمنٹ خریدا۔

فاروق ستار نے کہا کہ عمارت کی تعمیرات اور پلاٹ کے سائز سمیت تمام دستاویزات حکومتی اداروں سے منظور ہیں، سندھی مسلم کوپریٹیو ہاوسنگ سوسائٹی نے پلاٹ دیا اور لیز دی، یہ عمارت لیگل اور تمام قانونی تقاضوں کے مطابق بنائی گئی ہے، میں نے اس عمارت کے تمام ڈاکومنٹس دیکھے ہیں جوکہ لیگل ہیں، چیف جسٹس کا یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے برخلاف ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدنیتی پر نہیں دیکھ رہا، میرا چیف جسٹس صاحب سے سوال ہے؟ اسلام آباد کا ٹوئنز ٹاور، بنی گالا جب ریگولائز ہوسکتا ہے تو نسلہ ٹاور ریگولائز کیوں نہیں ہوسکتا، بحریہ ٹاون بھی پونے پانچ سو ارب روپے کی پینلٹی کے بعد ریگولائز کیا گیا جبکہ بحریہ پینلٹی کا پورا پیسہ سرکار کو ملا بھی نہیں، نہ ماسٹر پلان والوں سے پوچھا جا رہا ہے اور نہ سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائٹی سے کوئی سوال کیا جارہا ہے، یہاں بات صرف نسلہ ٹاور کے 44 فیلٹس کی نہیں بلکہ ایسے کئی اور بھی پروجیکٹس شہر میں ہونگے۔

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ نسلہ ٹاور کے متاثرین اور بلڈرز کی عزت نفس داؤ پر لگ گئی ہے، حکومت وقت کا کام ہے اگر یہ ٹاور ناجائز ہے تو ان متاثرین کو اسکا متبادل دیا جائے، میں نے سن رکھا ہے انصاف اندھا ہوتا ہے، ہم چیف جسٹس کے فیصلوں کے ساتھ ہیں، میں چیف جسٹس صاحب سے کہتا ہوں انصاف اندھا ہونا چاہیئے پر اندھادھند نہیں ہونا چاہیئے، میں سپریم کورٹ سے کہتا ہوں وہ نسلہ ٹاور سے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے، میں عدلیہ سے کہتا ہوں اگر یہ عمارت ناجاِئز ہے تو کے ڈی اے، ایس بی سی اے سمیت متعلقہ تمام محکموں کو بھی گرفت میں لایا جائے کہ انہوں نے این او سی دی کیسے؟ چیف جسٹس صاحب نسلہ ٹاور گرانے کے بعد اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ شہر میں کوئی بھی ناجائز تعمیرات نہیں ہونگی؟ سپریم کورٹ نے غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کے لئے کوئی کمیشن یا ادارہ بنایا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں نسلہ ٹاور سمیت شہر میں گرائے جانیوالی تمام عمارتوں کے مکینوں سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 941117
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش