0
Friday 2 Jul 2021 23:53

واشنگٹن نے دھوکہ دہی سے کام لیا جبکہ بائیڈن نے ایران کیخلاف ٹرمپ کی اقتصادی جنگ کو مزید آگے بڑھایا ہے، امریکی تجزیہ نگار

واشنگٹن نے دھوکہ دہی سے کام لیا جبکہ بائیڈن نے ایران کیخلاف ٹرمپ کی اقتصادی جنگ کو مزید آگے بڑھایا ہے، امریکی تجزیہ نگار
اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی تجزیہ نگار ڈینیئل لیریسن نے اپنے تاز ترین مقالے میں ایران کی جانب سے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ اپنی "تکنیکی مفاہمت" کے مزید آگے نہ بڑھائے جانے کی وجوہات بارے تمام مغربی و امریکی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ درحقیقت واشنگٹن نے اپنے عہدوپیمان پر عملدرآمد کے حوالے سے دھوکہ دہی سے کام لیا ہے۔ "اینٹی وار" اور "ریسپانسیبل اسٹیٹ کرافٹ" جیسے میڈیا گروپس کے ساتھ کام کرنے والے ڈینیئل لیریسن نے اپنے مقالے میں نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ڈیوڈ سنگر کے مقالے "ایران کے بارے بائیڈن کا موقف اور حشد الشعبی کے فوجی مراکز پر حالیہ امریکی حملے" پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے "ایران و ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) کے بارے مکمل طور پر گمراہ کن تحریر" قرار دیا اور لکھا ہے کہ بائیڈن و ایران کے بارے اس ہفتے نیویارک ٹائمز میں چھپنے والا نیا مقالہ؛ ایران اور اس سے متعلق بہت سے موضوعات کے بارے سخت غلط امریکی رپورٹنگ کا ایک زندہ نمونہ ہے۔

ڈینیئل لیریسن نے لکھا کہ ڈیوڈ سنگر، ایران کے حوالے سے اختیار کردہ بائیڈن کے رویے کو ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا پر امریکی بمباری اور ایرانی جوہری معاہدے (JCPOA) میں امریکی واپسی کے لئے جاری مذاکرات کے درمیان "توازن پیدا کرنے کا اقدام" قرار دیتا اور ہمیں کہتا ہے کہ یہ دونوں موضوعات انتہائی سختی سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں جبکہ ان دونوں موضوعات کو حقیقی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے والے کسی تیسرے موضوع کے بارے اس مقالے میں کچھ بیان نہیں کیا گیا درحالیکہ یہ موضوع دراصل "ایران کے خلاف چھیڑی گئی اقتصادی جنگ" ہی ہے جسے جوبائیڈن کی جانب سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ امریکی تجزیہ نگار نے لکھا کہ ڈیوڈ سنگر کے گمراہ کن مقالے میں وہ واحد جگہ جہاں ایران پر عائد امریکی پابندیوں کا ہلکا سا اشارہ دیا گیا ہے؛ نومنتخب ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی پر عائد کی جانے والی امریکی پابندیوں کا ذکر ہے جبکہ اس مقالے میں نہ صرف کئی ایک مقامات پر غلط یا گمراہ کن اطلاعات بھی قارئین تک پہنچائی گئی ہیں بلکہ کئی ایک اہم نکات کی جانب اشارہ تک بھی نہیں کیا گیا۔ ڈینیئل لیریسن نے لکھا کہ ڈیوڈ سنگر ایران کو "تیزی کے ساتھ جوہری ہتھیار کی جانب بڑھنے والا ملک" قرار دیتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسی کوئی بات ہی نہیں۔ امریکی تجزیہ نگار کا لکھنا ہے کہ ایران نے یورینیم کی زیادہ افزودگی کا اقدام درحقیقت ٹرمپ کی جانب سے اس پر عائد کی جانے والی پابندیوں اور بائیڈن کی جانب سے انہیں برقرار رکھے جانے پر اعتراض کی خاطر اٹھایا ہے اور اگر امریکہ اپنی تمام پابندیوں کو اٹھا لے توایران جوہری معاہدے پر عملدرآمد کو بالکل ویسے ہی دوبارہ شروع کر دے گا جیسا کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کے ساڑھے 3 سال بعد تک اس پر عملدرآمد کرتا رہا ہے۔

امریکی تجزیہ نگار نے اپنے مقالے میں ایران کے بارے سابق امریکی حکومت کے موقف اور واشنگٹن کی جانب سے تہران کے خلاف مسلط کی جانے والی اقتصادی جنگ پر بھی شدید تنقید کی ہے۔ ڈینیئل لیریسن نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ٹرمپ کے زیر اقتدار امریکہ کسی بھی صورت مثبت جواب دینے کے موڈ میں نہ تھا اور ہمیشہ ہی ایسے نئے نئے ناممکن مطالبات منوانے کے چکر میں رہتا تھا جن کے بارے سبھی کو معلوم تھا کہ ایران وہ مطالبات کبھی مان ہی نہیں سکتا۔ ڈینیئل لیریسن نے امریکی و اسرائیلی صدور کی اس ملاقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جس کے بارے ڈیوڈ سنگر کے مقالے میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس ملاقات کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ اسرائیل و امریکہ ایک ہدف کے لئے اکٹھے ہیں اگرچہ وہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے بارے مختلف تصورات کے حامل ہی کیوں نہ ہوں، لکھا کہ ایران کے پاس سرے سے جوہری ہتھیار ہی نہیں اور نہ ہی اس نے جوہری ہتھیار بنانے کے لئے کبھی کوئی منصوبہ بنایا ہے علاوہ ازیں یہ کہ ایران، فوجی مقاصد کے استعمال کے لئے ضروری یورینیم کی اعلی سطح کی افزودگی بھی انجام نہیں دیتا لہذا اس کے پاس "ڈالنے" کے لئے کوئی "ہتھیار" ہی نہیں.. اب بائیڈن جو کہتا ہے کہ وہ ایران کا جوہری اسلحہ "رکھوانا" چاہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران مسلح ہے درحالیکہ حقیقت میں ایران کے پاس کسی قسم کا جوہری اسلحہ ہی موجود نہیں!

امریکی مصنف نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ دستخط کئے جانے والے "تکنیکی مفاہمت" کے اس معاہدے کو ایران کی جانب سے مزید آگے نہ بڑھائے جانے کی جانب بھی اشارہ کیا جو ایران کی جانب سے رضاکارانہ طور پر شروع کئے گئے "اضافی پروٹوکول" پر عملدرآمد کے روکے جانے سے قبل، 21 فروری 2021ء کے روز طے پایا تھا، اور لکھا کہ ایرانی جوہری معاہدے کے مطلوبہ دائرہ کار سے آگے بڑھ جانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے نہ صرف اپنے عہدوپیمان پر عملدرآمد کے حوالے سے دھوکہ دہی سے کام لیا ہے بلکہ ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے ہر فریق کو بھی سزا دینے کی پوری کوشش کی ہے۔
خبر کا کوڈ : 941254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش