0
Friday 16 Jul 2021 17:53
مقدس ہستیوں کی توہین کا معاملہ، سزاوں میں اضافہ کر دیا گیا

اہلبیتؑ اور صحابہؓ کی توہین کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی جائے گی

مقدس ہستیوں کی توہین ناقابل ضمانت جرم ہوگا، کیس مجسٹریٹ کی بجائے سیشن عدالت سنے گی
اہلبیتؑ اور صحابہؓ کی توہین کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی جائے گی
اسلام ٹائمز۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چئرمین خرم نواز کی صدارت میں نادرا ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی پاکستان کے چترال سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی کی طرف سے پیش کیا گیا۔ امہات المومنینؓ، اہلِبیت اطہارؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کرنیوالے افراد کو سخت سزا دلوانے لیے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان (ایکٹ 54 بابت 1860ء) کی دفعہ 298.A اور مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898ء (ایکٹ نمبر 5، بابت 1898ء) کے شیڈول میں ترامیم پر مبنی ترمیمی بل کو زیر بحث لا کر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے منظور کر لیا۔

جب بل جمع کرایا گیا تھا تو اس پر ان کیساتھ متحدہ مجلس عمل پاکستان کے ممبران صلاح الدین ایوبی، مولانا عصمت اللہ، زاہد اکرم خان درانی، مفتی عبدالشکور، سید محمود شاہ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے ممبران انجینئر عثمان خان ترکئی، مجاہد علی نے بھی بل دستخط کیے تھے۔ یہ بل قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط مجریہ 2007ء کے قاعدہ 118 کے تحت نجی ارکان کے بل کے طور پر جمع کرایا گیا تھا۔اس سے قبل امہات المومنینؓ، اہلِ بیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کرنے والے افراد کی سزا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 اے میں سزا صرف تین سال ہے اور معمولی جرمانہ ہے جبکہ جرم قابلِ ضمانت بھی ہے۔ لیکن موجودہ ترمیم کے مطابق امہات المومنینؓ، اہلِبیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کرنیوالے افراد کی کم سے کم سزا دس سال اور زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید تجویز کی گئی ہے اور جرم ناقابل ضمانت ہوگا اور مقدمہ مجسٹریٹ کی عدالت کی بجائے سیشن کورٹ میں چلایا جائے گا۔

اس بل کے اغراض و مقاصد میں کہا گیا ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ کے گستاخ کی مقرر کردہ سزا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ (295 سی) کے تحت سزائے موت ہے اور دشمنانِ رسول ﷺ کو سزائے موت کے ڈر کی وجہ سے کھلم کھلا گستاخی کی جرأت نہیں ہوتی۔ گنے چنے لوگ چوری چھپے انٹرنیٹ، سوشل میڈیا وغیرہ پر اِکا دُکا توہین آمیز صفحات اپ لوڈ کرتے اور پیغامات بھیجتے رہتے ہیں، تاہم گستاخِ رسولﷺ کی سزا سزائے موت مقرر ہونے کی وجہ سے اس جرم کے مرتکب افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ صحابہ کرامؓ، مقدس ہستیوں اور شخصیات کی توہین سے نہ صرف وطنِ عزیز کے اندر دہشتگردی اور فتنہ و فساد کو فروغ حاصل ہوتا ہے بلکہ اس قسم کے جرائم کے ارتکاب سے ملک کے ہر طبقہ کے لوگوں کی دل آزادی بھی ہوتی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فتنہ و فساد کی دو ٹوک الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”فتنہ قتل سے بڑا جرم ہے“۔

 تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 اے میں امہات المومنینؓ، اہلِبیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کے مرتکب افراد کیلیے مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ سزا تین سال مع معمولی جرمانہ ہے، جبکہ یہ جرم قابلِ ضمانت بھی ہے۔ اس قدر کم سزا ہونے کی وجہ سے مجرمان سزا پانے کے باوجود دوبارہ اس جرم کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ نیز موجودہ کم سزا کی بناء لوگ ایسے مجرمان کو از خود سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے۔ امہات المومنینؓ، اہلِبیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کے مرتکب افراد نہ صرف ملکِ پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں بلکہ یہ ملک دشمنوں کو بھی حملہ آور ہونے کی دعوت دینے کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے جرم کے مرتکب افراد ملکی سلامتی کے لیے شدید خطرات پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 121 کے تحت ایسے مجرمان (یعنی ملکی سلامتی کیلئے شدید خطرہ بننے والے افراد) کی سزا سزائے موت مقرر کی گئی ہے۔ لہٰذا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 اے کو بھی تعزیراتِ پاکستان ہی کی دفعہ 121 کیساتھ پڑھا اور دیکھا جانا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ افراد دینی اساس کا سبب بننے والے معاملات پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

ان ترامیم کے جواز میں مزید کہا گیا ہے کہ جرائم کی فہرست میں چند جرائم ایسے بھی ہیں جو نوعیت کے لحاظ سے امہات المومنینؓ، اہلِ بیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین سے بہت کم درجہ کے ہیں، لیکن تعزیراتِ پاکستان میں ان کی سزائیں دفعہ 298 اے سے کہیں زیادہ ہیں۔ مثلاً 
1۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295 اے کے تحت اگر کوئی شخص کسی کے مذہبی شعائر یا مذہبی راہنما کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو اس کی سزا 10 سال سزائے قید ہے۔ جبکہ امہات المومنینؓ، اہلِ بیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کرنیوالے کی سزا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298 اے میں نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ قابلِ ضمانت بھی ہے۔
2۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 500 کے تحت عام آدمی کی توہین پر پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے جبکہ امہات المومنینؓ، اہلِبیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کرنے کی سزا دفعہ 298 اے میں نہایت کم ہے۔
3۔ دفعہ 381 اے تعزیرات پاکستان کے تحت سزا ”10 سال قید اور جرمانہ“ ہے جبکہ امہات المومنینؓ، اہلِ بیتؑ، خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ کی توہین کرنیوالے کی سزا دفعہ 298 اے میں نہایت کم ہے۔ جبکہ عبدالاکبر چترالی کی طرف سے نادرا کنٹریکٹ ملازمیں کو مستقل کرنے کے حوالہ سے سیکشن 35 میں دی گئی ترمیم کو قائمہ کمیٹی نے مسترد کر دیا۔
خبر کا کوڈ : 943731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش