0
Monday 19 Jul 2021 20:46

عراق میں ہرج و مرج کا سب سے زیادہ فائدہ امارات اٹھا رہا ہے، نصر الشمری

عراق میں ہرج و مرج کا سب سے زیادہ فائدہ امارات اٹھا رہا ہے، نصر الشمری
اسلام ٹائمز۔ عراقی مزاحمتی تحریک النجباء کے ترجمان نصر الشمری نے عالمی تجارتی اعداد و شمار بیان کرنے والے ادارے (OEC) کی تازہ ترین رپورٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارتی ترجیح پر مبنی عراقی حکومت کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انجینئر نصر الشمری نے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اپنے ایک پیغام میں سال 2019ء سے متعلق عالمی تجارتی اعداد و شمار تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ عراق سے امارات برآمد کئے جانے والے تجارتی سامان، جو زیادہ تر تیل کی مصنوعات پر مشتمل ہے، کی قیمت 1.27 ارب جبکہ امارات سے درآمد کئے جانے والے سامان، جو زیادہ تر سٹیلائٹ سے متعلق ہے کی قیمت 13.7 ارب ڈالر رہی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی توازن؛ 12.43 ارب ڈالر امارت کے حق میں رہا ہے۔

نصر الشمری نے لکھا کہ عراق میں قطر سے 3 کروڑ، سعودی عرب سے 70 کروڑ اور امریکہ سے 1.2 ارب ڈالر کا تجارتی سامان درآمد کیا گیا ہے جبکہ ملک سے 6.3 ارب ڈالر کا تیل امریکہ کو بیچا گیا جبکہ تجارتی توازن؛ 5.1 ارب ڈالر عراق کے حق میں رہا۔ النجباء کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کا لکھنا تھا کہ ہم چین کو 22 ارب ڈالر کا برآمدی سامان بیچتے ہیں اور اس سے 9 ارب ڈالر کی درآمدات حاصل کرتے ہیں جبکہ یہ معاملہ بھی 13 ارب ڈالر عراق کے حق میں رہتا ہے اور اسی طرح ترکی سے 10 اور ایران سے 8 ارب ڈالر، جس میں بجلی کی ٹربائنیں چلانے کے لئے 1 ارب ڈالر کی گیس بھی شامل ہے، کی درآمدات حاصل کی جاتی ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ یہ تمام اعداد و شمار، امریکہ، چین، ایران و ترکی جیسے بڑے صنعتی ممالک کے بارے تو سمجھ آتے ہیں لیکن امارات جیسے چھوٹے ممالک، جس میں صرف ایک ہی بندرگاہ اور چند ایک تجارتی دفاتر موجود ہیں درحالیکہ وہ پروڈیوسر بھی نہیں، یہ اعداد و شمار سمجھ سے باہر ہیں، تو پھر وہ عراقی جیب سے تقریبا 13 ارب ڈالر کیسے مار لے جاتا ہے؟ میں دہراتا ہوں؛ تیرہ ارب ڈالر..! نصر الشمری نے لکھا کہ بغداد سیدھا سیدھا چین جیسے پروڈیوسر ممالک کی طرف کیوں نہیں چلا جاتا؟ اور خاص طور پر تب جب اس کے ساتھ موجود تجارتی توازن بھی عراق کے حق میں ہے؟ انہوں نے اپنے پیغام میں بنیادی سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ جس وقت ملک میں بجلی کی شدید قلت ہے اور بجلی کو پورا کرنے کے لئے ملکی بجٹ میں سے 1 ارب ڈالر کو بجلی پیدا کرنے کے لئے ضروری گیس کی درآمد پر خرچ کیا جاتا ہے؛ تو ایسی صورت میں حکومت امارات سے سٹیلائٹ کے مہنگے، بے کیفیت اور بجلی کی کھپت بڑھانے والے سامان کی درآمد پر 3 ارب ڈالر خرچ کرنے کی اجازت ہی کیسے دے دی جاتی ہے..؟!

انہوں نے اپنے پیغام کے آخر میں عالمی تجارت کا یہ اصول تحریر کرتے ہوئے کہ اگر آپ کسی ملک کے ساتھ حتی کچھ لاکھ ڈالر کی ہی سہی (نہ کہ کئی ارب ڈالر کی)، تجارت کرتے ہیں تو بھی اس ملک کو کم از کم آپ کی خودمختاری کا احترام کر لینا اور آپ کے شہریوں کو خاص خدمات فراہم کرتے ہوئے، اپنے اقتصادی مفادات کے لئے کم از کم آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہئے۔ نصر الشمری نے اپنے پیغام کے آخر میں عراقی اندرونی معاملات میں امارات کی وسیع مداخلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ کیا یہ حقائق سابقہ (عراقی) حکومت کے خلاف پشت پردہ چڑھائی اور فاو پورٹ پراجیکٹ کی بندش کی وجوہات کو آشکار نہیں کرتے؟ انہوں نے لکھا کہ فاو پورٹ پراجیکٹ کا سب سے بڑا مخالف امارات ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کی کامیابی کے باعث اسے سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عراق میں شعلے بلند کرنے اور فاو پورٹ پراجیکٹ کو بند کروانے کے لئے بآسانی 1 ارب ڈالر بھی خرچ کئے جا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 944267
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش