0
Thursday 29 Jul 2021 12:29

ریاست کی ذمہ داری ہے وہ بچوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد سے بچائے، پارلیمانی کمیٹی

ریاست کی ذمہ داری ہے وہ بچوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد سے بچائے، پارلیمانی کمیٹی
اسلام ٹائمز۔ حکومتی پارلیمانی کمیٹی نے جسمانی سزا کی ممانعت بل 2021ء کی منظوری دے دی جس میں نہ صرف تعلیمی اداروں بلکہ کام کرنے کی جگہ پر بھی بچوں کے ساتھ جارحانہ سلوک پر پابندی عائد ہو گی۔ ذرائع کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے تاہم اس بل میں کچھ ترامیم کی ہیں۔ اس بل کے تحت کسی بھی فرد کی جانب سے بچوں کو جسمانی سزا، ملازمت کی جگہ پر، تعلیمی اداروں میں اور مذہبی سرکاری اور نجی بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں اور بحالی مراکز کے ساتھ ساتھ بچوں کے عدالتی نظام میں بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ مذہب کی روشنی میں اپنی رائے کے لیے قائمہ کمیٹی کی جانب سے مدعو کیے گئے دونوں مہمانوں کے علاوہ پوری کمیٹی نے اس بل کی منظوری دی۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر پروفیسر ساجد میر جنہیں اس معاملے پر مذہبی تناظر کی روشنی میں بات کرنے کی دعوت دی گئی تھی، اںھوں نے حدیث سے یہ مثال پیش کی کہ نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے اساتذہ کو آگے نہیں کرنا چاہیے۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جسمانی سزا کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جانا چاہیے، تاہم انہوں نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ پیش کردہ بل میں تجویز کردہ سزائیں جرائم کے ساتھ موافق نہیں ہیں۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی استدلال کیا کہ کچھ سختی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (پ) سزا کی بجائے اصلاحات پر یقین رکھتی ہے، ہم محسوس کرتے ہیں کہ جسمانی سزا پر پابندی لگانے سے معاشرے میں اخلاقی بدحالی ہو گی اور اس میں زیادتی کی گنجائش بھی ہو گی۔ انہوں نے ایک میکنزم تجویز کیا کہ تنظیم کے سربراہ، والدین اور ملزمان پر مشتمل کمیٹی حقائق کا پتہ لگانے کے لیے دو روز میں فیصلہ کرے۔ انہوں نے اس جرم کی سنگینی پر تنخواہوں میں اضافے اور ترقیوں، جرمانے، لازمی ریٹائرمنٹ، اور برخاستگی کی بھی تجویز پیش کی۔

تاہم بل پیش کرنے والی سینیٹر سعدیہ عباسی نے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر کے فزیشنز، ماہرین نفسیات اور ماہرین تعلیم نے بچوں کی ذہنی اور علمی نشوونما پر جسمانی سزا کے منفی اثرات کی نشاندہی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ان گنت تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جسمانی سزا اور ماحول بچوں کی شخصیات میں جارحیت سمیت متعدد نفسیاتی سماجی عدم توازن پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین کا اتفاق ہے کہ جسمانی سزا سے بچے کی صحت پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں خاص طور پر ان کے برتاؤ اور دماغی صحت پر۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح اور طلبہ کی کم سیکھنے کے نتائج کی ایک وجہ اساتذہ کی جانب سے جسمانی سزا بھی ہے۔ اقوام متحدہ کی کنوینشن برائے حقوق اطفال 1989ء جس کی پاکستان نے توثیق کی تھی، کے مطابق اب ریاست کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو ہر طرح کے جسمانی اور ذہنی تشدد اور سے بچائے۔ انہوں نے زور دیا کہ لہذا جسمانی سزا پر پابندی عائد کی جانی چاہیے اور اسے ایک ایکٹ کے ذریعے جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ تاہم کمیٹی نے تعریفوں میں ترمیم کی اور سزاؤں کو کم کیا۔اس مسودے پر اب مزید غور کے لیے ایوان میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 945728
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش