1
Monday 2 Aug 2021 15:49

نان بائی اور اڑھائی روپے

نان بائی اور اڑھائی روپے
رپورٹ: اعجاز علی

چند مہینے قبل کوئٹہ میں نان بائی حضرات نے مہنگائی کی مد میں روٹی کی قیمت میں اضافے کا اعلان کر دیا اور ایک روٹی 20 کے بجائے 30 روپے میں فروخت کرنا شروع کر دی۔ اس پر عوامی ردعمل کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اقدامات اٹھائے تو نان بائی ایسوسی ایشن کی جانب سے ہڑتال کی کال دی گئی اور کوئٹہ کے تمام تندور مالکان نے احتجاجاً اپنی دکانیں بند کر دیں۔ اُن دنوں کوئٹہ کے باسیوں کو شدید مشکلات جھیلنی پڑیں۔ وہ تمام لوگ جو تندور سے روٹی لیا کرتے تھے، شدید پریشانی کے عالم میں گرفتار ہوگئے، کیونکہ ان کے پاس اس کا کوئی متبادل حل موجود نہیں تھا۔ بہرحال انتظامیہ اور نان بائی ایسوسی ایشن کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد روٹی کی قیمت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے وزن میں کمی لائی گئی اور ایسا لگنے لگا کہ سارا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔

یہ واقعہ تو گزر گیا، مگر اس واقعے کے چند ماہ بعد، یعنی آج سے ایک مہینہ قبل نان بائی ایسوسی ایشن کی جانب سے روٹی کی قیمت میں 5 روپے اضافہ کر دیا گیا اور نئی قیمت 25 روپے فی روٹی رکھ دی گئی۔ اس کا اعلان یوں ہوا کہ تندروں کے پاس نوٹس لگائے گئے اور اگلے دن سے نئی قیمتوں کا اطلاق ہوگیا۔ اول تو لوگ سوشل میڈیا پر ہنسی مذاق میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ اگر کوئی شخص آدھی روٹی خرید لے تو اس کے باقی 50 پیسوں کا کیا ہوگا، شاید تندور والے اب اپنے پاس ٹافیاں رکھنا شروع کر دیں، تاکہ 50 پیسوں کے بجائے ٹافی دے دیں۔ مگر تندور مالکان نے اس مسئلے کا الگ ہی حل نکال لیا۔ انہوں نے اپنے پاس دو روپے کے سکے تک رکھنا گوارا نہ کیا اور آدھی روٹی جس کی قیمت 12.5 روپے بنتی ہے، اسے 15 روپے میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔

یعنی اگر کوئی شخص آدھی یا ڈیڑھ یا اڑھائی اور اسی تعداد میں روٹیاں خریدے تو اسے اڑھائی روپے تندور والوں کو اضافی دینا ہوگا، کیونکہ ان کے پاس دو روپے کے سکے نہیں ہیں۔ اگر شرعی اور قانونی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ تندور والوں کا حق نہیں ہے، مگر کیونکہ یہ ایک چھوٹی رقم ہے، اسی لئے عوام الناس کو اس سے خاص فرق نہیں پڑتا۔ کوئٹہ شہر کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں دو لاکھ لوگ ایسے ہیں، جو خود اپنے گھروں میں روٹیاں پکاتے ہیں۔ باقی آٹھ لاکھ کو اگر ہم خاندان کے اعتبار سے تقسیم کریں تو ایک خاندان میں اوسطاً 4 افراد ہیں۔ ایک خاندان کیلئے روٹی لانے ایک فرد ہی جائے گا۔ اس اعتبار سے کوئٹہ میں دو لاکھ افراد ایسے ہیں، جو روٹی خریدنے کیلئے تندوروں کا رخ کرتے ہیں۔

یقیناً ہر آٹھ میں سے ایک فرد آدھی روٹی ضرور لیتا ہوگا۔ یوں ایک وقت میں 25 ہزار لوگ اڑھائی روپے بغیر کسی بات کے تندور والوں کو دے دیتے ہیں۔ اگر صبح، دوپہر اور رات کا حساب لگائے تو ایک دن میں 75 ہزار روپے بنتے ہیں، اور ایک مہینے میں 22 لاکھ 50 ہزار روپے۔ اگر یہی رقم تعلیم پر کام کرنے والے کسی فلاحی ادارے کو دے دی جائے تو شاید ہمیں کوئٹہ کی سڑکوں پر کوئی بھی بچہ بھیک مانگتا یا کام کرتا نظر نہ آئے، مگر عوام الناس کی خاموشی کی وجہ سے یہ ساڑھے بائیس لاکھ روپے تندور والوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 946409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش