0
Tuesday 3 Aug 2021 20:13
گڑھ مہاراجہ میں گیارہ عزاداروں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنا تشویشناک ہے

عزاداری کیخلاف رکاوٹیں بند نہ کی گئیں تو عاشورہ جلوسوں کو احتجاجی دھرنوں میں تبدیل کر دینگے، شیعہ علماء کونسل

جبری گمشدیوں کا معاملہ ختم کرکے علامہ مظہر کاظمی کو فی الفور رہا کیا جائے، رہنماوں کا مطالبہ
عزاداری کیخلاف رکاوٹیں بند نہ کی گئیں تو عاشورہ جلوسوں کو احتجاجی دھرنوں میں تبدیل کر دینگے، شیعہ علماء کونسل
اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل شمالی پنجاب کے صدر علامہ سید سبطین حیدر سبزواری نے کہا ہے کہ پاکستان میں فرقے موجود ہیں، مگر فرقہ واریت نہیں ہے، عزاداری کسی کیلئے تکلیف کا باعث نہیں، عزاداری حکومت کے بھی خلاف نہیں، یہ یزیدی سوچ کیخلاف ہے۔ اہلسنت ہمارے بھائی ہیں اور وہ جلوسوں اور مجالس میں ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ مقدمات، گرفتاریاں اور دباو عزاداری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے، جب بھی کوئی آزمائش آئی، ہم سرخرو ہوئے۔ عزاداری پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عزاداری کیخلاف رکاوٹیں بند نہ کی گئیں اور علامہ مظہر کاظمی کو فی الفور رہا نہ کیا گیا تو عاشورہ محرم الحرام کے جلوسوں کو روک کر احتجاجی دھرنوں میں تبدیل کر دیں گے۔

شیعہ رہنماوں نے کہا کہ واضح کرتے ہیں کہ شیعیان حیدر کرار عزاداری پر مر مٹنے کیلئے تیار ہیں، کسی ماتمی جلوس کے روٹ سے ایک انچ پیچھے ہٹنے، مجلس یا جلوس کے وقت میں ایک سیکنڈ کم کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ عزاداری کیخلاف درج تمام جھوٹی ایف آئی آرز کو واپس لیا جائے، نئی مساجد اور امام بارگاہوں کی تعمیر میں رکاوٹیں بند کی جائیں۔ فورتھ شیڈول کا غلط استعمال ختم کرکے اس ظالمانہ قانون میں ڈالے گئے افراد کو نکالا جائے۔ سی ٹی ڈی کے ظالمانہ غیر قانونی اقدامات کو روکا جائے اور اسے لگام ڈالی جائے۔

لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے عزاداری میں مسلسل رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں، روایتی، لائسنسی اور پرانی مجالس اور ماتمی جلوسوں میں پولیس کی سپیشل برانچ بددیانتی کرکے ریکارڈ میں ردو بدل کرتی ہے، کسی مجلس کا وقت کم یا کسی روٹ کو مختصر لکھ دیا جاتا ہے۔ رپورٹ پر بانی مجلس و جلوس کے دستخط بھی لئے جائیں۔ پریس کانفرنس میں مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالخالق اسدی، مولانا روح اللہ کاظمی، قاسم علی قاسمی، شوکت علی اعوان، جعفر علی شاہ، مولانا صفدر علی، لعل مہدی خان اور دیگر بھی موجود تھے۔

علامہ سبطین سبزواری نے پرنسپل جامعہ بعثت رجوعہ سادات علامہ مظہر حسین کاظمی کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اور اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ممتاز عالم دین کو ایک طالبعلم کے ہمراہ تفتان بارڈر سے 28 جون کو اٹھایا گیا۔ آج تک پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہیں؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ اگر ان کیخلاف کوئی مقدمات ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، ملک کو جنگل نہ بنایا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کسی شیعہ فرد یا تنظیم نے ریاست پاکستان کیساتھ غداری کی اور نہ ہی اپنی فوج اور ریاستی اداروں کے افراد کو قتل کیا۔ علامہ مظہر کاظمی کو فی الفور رہا کیا جائے۔ ہمیں ممتاز عالم دین کی زندگی کے بارے میں خدشات ہیں کہ کہیں انہیں شہید نہ کر دیا جائے۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان، آرمی چیف، وزیراعظم اور صدر مملکت سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ”نامعلوم“ کی ریاستی دہشتگردی کا نوٹس لیں اور انہیں قانون کے دائرے میں لائیں۔

شیعہ علماء کونسل کے صوبائی صدر نے فورتھ شیڈول کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بدمعاشوں اور دہشتگردوں کی بجائے شریف شہریوں کو تنگ کیا جا رہا ہے اور ذاتی عناد پر بدلے لئے جا رہے ہیں۔ جس کی ایک تازہ مثال ضلع جھنگ کا تھانہ گڑھ مہاراجہ ہے، جہاں ایس ایچ او نے گیارہ شیعہ افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈال دیا ہے۔ ہر سال دسیوں سال پہلے فوت ہونیوالے علماء اور ذاکرین پر پابندی کے آرڈرز کا اجرا انٹیلی جینس اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے گذشتہ سال چہلم سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے جلوسوں میں شرکت کیلئے جاتے ہوئے اور محرم الحرام کے دیگر ایام میں درج کی گئی جھوٹی ایف آئی آرز کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ کسی قسم کی رکاوٹیں اور دباو عزاداری کو روک نہیں سکتیں، مقدمات کرو گے، تو عزاداری اگلی بار اس سے زیادہ شدت اور شان و شوکت کیساتھ ہوگی۔ مقدمات اور ریاستی دباو محبت اہلبیت ؑ کے اظہار اور اپنی مذہبی رسومات سے روک نہیں سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی آبادی کیساتھ تعلیمی ادارے، ہسپتال، تھانے اور مارکیٹوں کی تعداد بھی بڑھی ہیں۔ لیکن نئی شیعہ مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ علامہ سبطین سبزواری نے تشویش کا اظہار کیا کہ کچھ مقامات پر گھروں میں علم لگانے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور استفسار کیا کہ پاکستان ریاست ہے یا جنگل۔ پاکستان میں مذہبی اور فرقہ وارانہ تنوع موجود ہے۔ میں اپنے گھر پر کس پارٹی کا، یا کس مذہب و مسلک کا پرچم لگاتا ہوں، یہ میرا حق ہے، کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے عقائد کے اظہار پر گرفتاریوں کی بھی مذمت کی اور نوجوانوں، بانیان مجالس اور ماتمی جلوسوں کے منتظمین سے اپیل کی کہ کسی پولیس والے، کسی ایجنسی اور انتظامیہ کے دباو میں آنے کی ضرورت نہیں، عزاداری ہمارا شہری اور بنیادی آئینی حق ہے اور ہر صورت لے کر رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 946639
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش